اور مقتول کے بیٹے کے سر پر دست شفقت رکھنے کی فرصت تو درکنار ہمدردی کے دو بول بولنے کی توفیق نہ ہوئی، سیاسی اکابرین کی جانب سے بھی سیلفی بیانات کے بعد خاموشی چھا گئی۔ تفصیلات کے مطابق 7دسمبر کی شام تھانہ کینٹ کی حدود مدینہ کالونی میں نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے عہدنامہ سوشل میڈیا گروپ کے چیف ایگزیکٹیو اور گومل جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری صحافی قیس جاوید کو اس وقت فائرنگ کا نشامہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جب وہ اپنے جواں سالہ بیٹے کے ہمراہ اپنے گھر میں داخل ہو رہا تھا۔ واقعہ کے بعد پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا اور واقعہ کی تفتیش شروع کی، اس سانحہ پر پہلے دو روز تو تواتر کے ساتھ چند مقامی سیاسی اکابرین کی جانب سے دھواں دار بیانات سامنے آئے تاہم وقت گزنے کے ساتھ ساتھ موسم کی خنکی نے شاید ان کے جذبات کو بھی سرد کر دیا۔ آنجہانی صحافی قیس جاوید نے اپنی صحافتی زندگی کی جدوجہد کے دوران نہ صرف اپنی اقلیتی برادری بلکہ تمام سیاسی جماعتوں اور شہر بھر کے مسائل کیلئے اپنی آواز بلند کی۔ کوئی سیاسی جلسہ ہو، ثقافتی تہوار ہو ، مذہبی تقریب ہو یا کوئی نجی محفل، قیس جاوید اپنی ٹیم کے ہمراہ میڈیا کوریج کیلئے پیش پیش ہوتے اور سب سے پہلے خبر کی مستند ذرائع سے آگاہی ان کا خاصا رہی۔ قیس جاوید کے بہیمانہ قتل کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ ان کی پارٹی اور اقلیتی برادری کے ایم این ایز و ایم پی ایز سمیت حلقہ ایم این اے، ایم پی اے اور مولانا برادران نہ صرف آنجہانی قیس جاوید کے بیٹے کے سر پر دست شفقت رکھتے، حکومت سے متاثرہ خاندان کی مالی امداد سمیت قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے میں اپنا اثرو رسوخ اور توانائیاں خرچ کرتے تاہم یہاں شاید جو آئے وہ محض سیلفیوں کے شوقین اور اخبارات میں اپنی تصاویر اور نام کی اشاعت کے ہی شوقین تھے۔ ڈیرہ کی عوام اور صحافتی حلقوں کو امید تھی کہ شاید وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈہ پور گلگت بلتستان کے سیاسی جوڑ توڑ اور پی ڈی ایم کی خلاف حکومتی جدوجہد سے چند گھنٹے نکال لیتے مگر شاید وہ بھی اپنے مخالفین کی راہ پر چل نکلے ہیں کہ ان کے کام بھائی اور بھائیوں کے کام اور ذمہ داریاں ان کے ملازمین کی فوج انجام دے گی۔
مگر ہمارا یقین ہے کہ آنجہانی صحافی قیس جاوید کا خون ضرور رنگ لائے گا.