گومل یونیورسٹی کے نگران وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مسرور الٰہی بابر نے کہا ہے کہ زرعی یونیورسٹی بننے سے گومل یونیورسٹی کو کسی قسم کا نقصان نہیں پاکستان میں ایک یونیورسٹی سے متعدد یونیورسٹیوں کے کامیاب قیام کی مثالیں موجود ہیں گومل یونیورسٹی کو ماضی میں جس انداز سے تباہی کی جانب لے جایا گیا سیاسی اور ذاتی مفادات کی خاطر مخصوص مافیا اب بھی انہی سازشوں میں مصروف ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ گومل یونیورسٹی کے اثاثے ایک اعلی سطحی کمیٹی کی نگرانی میں تقسیم ہوئے جس میں 75 فیصد گومل اور 25 فیصد زرعی یونیورسٹی کو دئے گئے۔ گومل یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے ماضی میں زرعی فیکلٹی میں کنٹریکٹ پر بھرتی ملازمین کو بھی زرعی یونیورسٹی میں کنٹریکٹ پر ضم کیا گیا ہے جہاں باقائدہ پراسس کے تحت ملازمین کو ریگولر کیا جائے گا۔ زرعی یونیورسٹی کے اثاثہ جات کی تقسیم اور دیگر معاملات پر سنڈیکیٹ کے چودہ ممبران نے شرکت کی منٹس پر دو ممبران نے تحفظات کا اظہار کیا مگر اچانک سابق وائس چانسلر صاحب کی گومل یونیورسٹی آمد کے بعد وہی ممبران سنڈیکیٹ میٹنگ کے ایجنڈا آئیٹم سے بھی لاعلمی ظاہر کرنے لگے ۔ میرے کوئی ذاتی یا سیاسی مقاصد نہیں ہیں گومل یونیورسٹی کا مفاد مجھے اسی طرح عزیز ہے جیسے زرعی یونیورسٹی کا مفاد۔ چار سال قبل زرعی فیکلٹی کو اپ گریڈ کرکے زرعی یونیورسٹی بنانے کی این او سی گومل یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر نے دی سب خاموش رہے مگر مسئلہ آج پیدا ہوگیا جسکی وجہ گومل دوستی نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ سابقہ دور میں گومل یونیورسٹی کو فیسوں کی مد میں کروڑوں کا نقصان پہنچایا گیا۔ کالجز کی ایفی لی ایشن میں مالی کرپشن کی الگ داستانیں ہیں دیگر معاملات بھی ہوشربا ہیں یہی عناصر گومل کی تباہی میں پیش پیش ہیں مگر کوئی انکے خلاف نہیں بولتا۔ میں ایکشن لیتا ہوں عدالتوں کے سٹے آرڈر آجاتے ہیں اور عدلیہ کااحترام میری ترجیحات وفرائض میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج جو عناصر زرعی یونیورسٹی بننے کو گومل یونیورسٹی کی تباہی گردانتے ہیں وہ گومل یونیورسٹی کی کیا خدمت کرتے رہے ہیں کوئی مثال نہیں ۔ گومل یونیورسٹی میں نئے شعبہ جات کا آغاز کیا جارہا ہے۔ مرکزی وصوبائی حکومت نے علاقے کے مستقبل کو مدنظر رکھ کر زرعی یونیورسٹی بنائی یہ دونوں یونیورسٹیاں ترقی کریں گی اور دور رس ثمرات دیں گی۔