سینئیر صحافی مظہر عباس نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا مقامی علاقوں کی خبروں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ وہ گلوبل نیبر ہوڈ فار میڈیا انوویشنز کے پاکستان انٹرپرنئیریل جرنلزم کی کیپسٹون لانچ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ جی این ایم آئی نے اس پروگرام کے تحت پاکستان بھر سے چھیاسٹھ صحافیوں کو ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے نیوز پلیٹ فارم بنانے کی تربیت دی ہے جن میں سے بیس صحافیوں کے نیوز پلیٹ فارمز کو اس تقریب میں لانچ کیا گیا۔ تقریب چار حصوں میں تقسیم تھی۔ صنفی نمائندگی اور سوشل میڈیا، ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز اور صحافتی اخلاقیات، ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنا ضرورت ہے انتخاب نہیں، معیشت اور کم زور معاشرتی اقدار۔
وہ اس تقریب کے ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز اور صحافتی اخلاقیات کے سیشن سے خطاب کر رہے تھے۔ اس سیشن میں ان کے علاوہ سینئیر صحافی کمال صدیقی، سبوخ سید، نادیہ نقی اور تحریم عظیم بھی شامل تھے۔
مظہر عباس نے کہا کہ انہوں نے بہت سے صحافیوں کو صحافت میں جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب صحافی فیلڈ میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں پتہ لگتا ہے کہ عملی صحافت کتابوں سے بہت مختلف ہے۔ صحافی کے اندر نیوز سینس کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پہلے خبریں ہوتی تھیں۔ اب ہیڈ لائنز ہوتی ہیں۔ دیگر ممالک میں پرنٹ میڈیا تحقیقاتی صحافت اور تجزیوں کو جگہ دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں میں خود اعتمادی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ باہر نکلیں، سوال کریں اور خبر بنائیں۔ انہوں نے بلوچستان سے ایک نیوز سٹارٹ اپ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہاں بہت خبریں ہیں جو کور کی جا سکتی ہیں۔ کہانیوں کی کمی نہیں ہے لیکن اسے کور کیسے کرنا ہے اس کی کمی ہے۔ پاکستان میں خبریں بے شمار ہیں جو ٹی وی پر نظر نہیں آتیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحافت میں ہوس سچ پر حاوی آ جاتی ہے۔ آمدن بنانا اور خبر بنانا دو مختلف چیزیں ہیں لیکن آمدن کو خبر پر حاوی نہ ہونے دیں۔ اگر آپ نے اچھی خبریں بنائیں، اچھے فیچر بنائے تو آپ کا چینل خود بخود ترقی کرے گا۔ آپ جس فیلڈ میں کام کر رہے ہیں اس میں اپنی مہارت پیدا کریں۔ خبر کو ڈبل چیک ضرور کریں۔ اگر کوئی آپ کو خبر دے رہا ہے تو کسی مقصد سے دے رہا ہے۔ آپ اس مقصد کو ضرور چیک کریں۔
کمال صدیقی نے کہا کہ وہ پاکستان میں آزاد میڈیا پلیٹ فارمز کو بنتا دیکھ کر بہت خوش ہیں۔ تاہم، ان چینلز کے لیے مونیٹائزیشن اور خود مختاری بڑے چیلنج ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ پلیٹ فارم مستقبل میں صحافت کا آئینہ دار بنیں گے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ڈس انفارمیشن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ ان چینلز کے بھی چیلنج ہوگا۔ انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ وہ نئی ٹیکنالوجی سیکھتے رہیں اور اپنا کام اس کے مطابق کرتے رہیں۔
جی این ایم آئی کی صدر ناجیہ اشعر نے کہا کہ پاکستان انٹرپرنئیریل جرنلزم پروگرام پاکستان میں اپنی طرز کا پہلا پروگرام ہے جس کے ذریعے چھیاسٹھ صحافیوں کو ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے نیوز پلیٹ فارم بنانے کی تربیت دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا میں ڈس انفارمیشن کے خاتمے اور صحافیوں کے لیے نئے معاشی مواقع ڈھونڈنے کے لیے یہ پروگرام بہت ضروری تھا۔ اس پروگرام میں صحافیوں کو ٹیکنالوجسٹ اور انڈسٹری ایکسپرٹ کے ساتھ بٹھایا تاکہ یہ ان سے ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے سٹارٹ اپ چلانا سیکھ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے انہیں اس پروگرام کا زیادہ تر کام آن لائن کرنا پڑا۔ ان کی تنظیم نے میڈیا انکیوبیشن سنٹر اور ایکسلریشن پلیٹ فارم بنایا ہے جس پر پروگرام کے شرکاء کو ٹریننگ دی گئی۔
نادیہ نقی نے کہا کہ ان پراجیکٹس کے ذریعے پاکستان میں موجود مقامی علاقوں کے مسائل اجاگر کیے جا سکیں گے۔
صحافی سبوخ سید نے کہا کہ آج کے دور میں صحافت بین الاقوامی سطح پر نہیں بلکہ مقامی سطح پر ہوتی ہے۔ پاکستان میں مین اسٹریم میڈیا مقامی خبروں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ میڈیا کو اپنی بقاء کے لیے مقامی خبروں کو زیادہ جگہ دینی ہوگی۔ انہوں نے پراجیکٹ کے شرکاء کے میڈیا پلیٹ فارم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جن علاقوں پر یہ کام کر رہے ہیں وہاں سے زیادہ خبریں سامنے نہیں آتیں۔ امید ہے اب ان کے ذریعے وہاں سے بھی خبریں دیکھنے کو ملیں گی۔
تحریم عظیم نے کہا کہ کچھ سال پہلے تک ڈیجیٹل میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں کو صحافی ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ تمام میڈیا ادارے اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ صحافی بھی ان پلیٹ فارمز کا استعمال کر کے آزادانہ صحافت کر سکتے ہیں اور اپنی آمدن کا ذریعہ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
صحافی اور اینکر ناجیہ اشعر نے 2017 میں گلوبل نیبرہوڈ فار میڈیا انوویشنز کی بنیاد رکھی تھی۔ جی این ایم آئی پاکستان میں میڈیا کی ترقی کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کے مختلف پراگرامز کے تحت صحافیوں کو مختلف طرح کی تربیتی ورک شاپس فراہم کی جاتی ہیں۔