پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں تخفیف غربت اور سماجی تحفظ ڈویژن کی آڈٹ رپورٹ سال 2019-20 کا جائزہ لیا گیا جس میں بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام میں تقریبا 57 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے تخفیف غربت اور بی آئی ایس پی پروگرام میں 57 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اس 57 ارب میں سے 19 ارب 32 کروڑ روپے بی آئی ایس پی سرکاری ملازمین اور افسران کے درمیان تقسیم ہوئے ہیں۔
بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حکام کے مطابق 19 ارب روپےایک لاکھ 43 ہزار سرکاری ملازمین اور 2500 افسران میں تقسیم ہوئے۔
اجلاس میں ماضی میں بی آئی ایس پی فنڈ سرکاری ملازمین کو دیئے جانے سے متعلق معاملہ پر ادارے کے سیکریٹری یوسف خان نے بتایا کہ 43 ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، جبکہ اس سے مستفید ہونے والوں میں ایک لاکھ 43 ہزار سرکاری ملازمین ملوث ہیں جن میں گریڈ 17 اور اس سے اوپر گریڈ کے دو ہزار 500 افسران بھی شامل ہیں۔
بی آئی ایس پی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ان افسران کا کیس وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھجوا دیا گیا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ملوث افسران کی تنخواہ اور پینشن کے ذریعے ریکوری کی ہدایت دی ہے۔
وزیراعظم کیش پروگرام کے تحت سیلاب متاثرین کو فی کس 25 ہزار روپے تقسیم کرنے کے معاملے پر سیکریٹری بی آئی ایس پی نےکمیٹی کو بتایا کہ 98 فیصد سے زائد سیلاب متاثرین کو پیسے دیئے جا چکے ہیں، اور بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے 70 ارب روپے تقسیم کیے گئے ہیں۔
بی آئی ایس پی کی رقوم براہ راست ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنروں کو منتقل کرنے پر چئیرمین کمیٹی نے پوچھا، ’کس قانون کے تحت رقوم سرکاری ملازمین کو منتقل کی گئی؟
اس پر سیکرٹری نے بتایا کہ ’حالیہ رقوم غربت سروے کی بنیاد پر تقسیم کی گئیں جس کی سفارش این ڈی ایم اے نے کی تھی اور ڈپٹی کمشنر کے ذریعے پیسے تقسیم نہیں کیے گئے۔
سیکرٹری بی آئی ایس پی نے کمیٹی کو بتایا کہ فی خاندان 25 ہزار روپے تقسیم کیے گئے جبکہ ادارے کے پاس نقصانات کا تخمینہ لگانے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے، بی آئی ایس پی صرف رقوم کی تقسیم کا کام کرتا ہے۔