جسٹس قاضی فائز نے عدالتی فیصلوں کی چھپائی سے لے کر آزادی صحافت، ووٹوں کی خریدوفروخت، ججوں کی ویڈیو ریکارڈ، بلیک میلنگ، کابینہ اجلاس کی براہ راست کوریج اور سابق فوجی آمروں ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو ملک کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کا مقدمہ براہ راست نشر کرنے کی درخواستوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
درخواست پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بنچ نے کی۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی نے دلائل میں کہا حکومت ججوں کے پیچھے پڑنے، ججوں کی جاسوسی کرنے کے بجائے اپنا کام کرے، میں اکیلا ہوں، اکیلا ہی کھڑا رہوں گا چٹان کی طرح، قائداعظم کے دوست کے بیٹے قاضی فائز عیسی کو غدار کہا جا رہا ہے، قرار داد پاکستان پر لوگوں نے ملک بنایا جو ڈکٹیٹروں نے دو لخت کردیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید کہا کہ لسانی کارڈ کے استعمال نے ملک کو تباہ کیا،حکومتی وکیل قانونی گفتگو کریں ڈرامے بازی نہ کریں، بلوچستان نے پاکستان بنا کر دکھایا ، ضیاء الحق اور مشرف کا نام لینے سے بھی لوگ ڈرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو تکبر بالکل پسند نہیں نہ اس کی معافی ہے، تمام قانون اور عدالتی فیصلے نجی پرنٹنگ پریس چھاپتے ہیں، شرم کی بات ہے کل نجی کمپنیاں چھاپنے سے انکار کردیں تو کیا ہوگا، ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے فوجی آمروں نے ملک تباہ کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میڈیا اتنا آزاد ہے کہ ساری خبریں عمران خان اور شیخ رشید سے شروع ہوتی ہیں، میڈیا اتنا آزاد ہے تو کل کوئٹہ تک لانگ مارچ کا فیصلہ کیوں کیا،مجھ سے بھٹو کیس کی کارروائی کا سوال پوچھا گیا،ایک صاحب نے کہا کہ جب ججز بھٹو کا کیس سن رہے تھے تو ان کے پیچھے بندوق والے کھڑے تھے، بندوق ججز کی کن پٹی پہ تھی، اگر بھٹو شہید کیس کی ریکارڈنگ ہوتی تو سب سامنے ہوتا، جسے مرد حق اور مرد مومن کہتے تھے اس نے ملک اور عدلیہ کے ساتھ کیا کیا علم ہونا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم نے اپنا اور اپنے بچوں کا تحفظ کرنا ہے،بلیک میلنگ کی جاتی ہے ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، احتساب عدالت کے ججز سمجھوتہ کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں، ججز کی کس نے ریکارڈنگ کی اور کیس نے بلیک میل کیا، ہمارے ایجنسی کی یہ یوں تو بہت تعریف کی جاتی ہے لیکن کیا اس نے وڈیو بنانے والا کا پتہ لگایا،کراچی کے ایک ڈیتھ سیل سے ریکارڈنگ کرکے قومی میڈیا پر چلائی گئی، نیب کے حوالات سے کسی کی تذلیل کے لیے فوٹو چلادی جاتی ہے،یہ ملک جتنا ان کا ہے اتنا ہمارا بھی ہے،مقتدر حلقے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کے مالک ہیں تو وہ یا فرعون ہیں یا پاگل،جو اپنے آئینی دائرے سے نکل جاتے ہیں وہ سچے پاکستانی نہیں، بلوچستان یونیورسٹی کے بیت الخلا میں کیمرے لگا کر خواتین کی وڈیوز بنائی گئیں،ہم جوکر بن چکے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید کہا ہم سو لوگوں کا انتخاب تک نہیں کراسکتے، صدر وزیراعظم وغیرہ کی جانب سے روانہ احتساب کے بھاشن دیے جاتے ہیں، جج کو بلیک میل نہیں ہونا چاہیے، جج بلیک میل ہونے کی بجائے خود کشی کرلے،جج کے لیے موت غلط فیصلہ دینے سے بہتر ہے،وزیراعظم نے الیکشن کمیشن جو ایک آئینی ادارہ ہے اس پر حملہ کیا، لیکن سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن پر حملے کا کوئی فرق نہیں پڑا،کل کو عدالت پر حملہ کیا جائے گا، کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم ایسا ہوتا ہے،ہمیں خود کو اکاؤنٹ ایبل ہونا چاہیے، ایک دن کے نوٹس پر فل کورٹ لگ جاتی ہے، میں اس عدالت کو طاقتور بنانے کا مقدمہ لڑ رہا ہوں، 23 مارچ آرہا ہے تو قرار داد مقاصد ہی عوام کو آسان فہم زبان میں بتادیں،پاکستان بنانے والے اس دن غائب ہوں گے لیکن جہاز بڑے شوق سے اڑائیں جائیں گے، خدشہ ہے کہ کچھ عرصے بعد قائداعظم کی بجائے ضیاء الحق کی تصویر نہ لگا دی جائے، گوروں سے آزادی لے کر ملک کالوں کی غلامی میں چلاگیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے مزید کہا وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی براہ راست نشر ہونا چاہیے، یہ طے ہونا چاہیے کہاں سیاست ختم ہوتی ہے اور کہاں سے طرز حکمرانی کا آغاز ہوتا ہے، وزراء سیاسی بیانات جاری نہیں کرسکتے،وزراء کا سیاسی بیانات دینا انکے حلف کی خلاف ورزی ہے، یہ کسی قانون کی کتاب میں نہیں لکھا ہوا میرے عزیز ہم وطنو والی تقریر براہ راست نشر کی جائے،یہاں ایسا ہوتا ہے کہ عمران خان آتے ہیں اور ساتھ ہی پانچ کمپیئر آجاتے ہیں،انگریزی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک آرٹیکل چھپا، آرٹیکل کا عنوان تھا جمہوریت اندھیرے میں مر جاتی ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا عدلیہ اندھیرے میں مر جاتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا میں نے دلائل کا آغاز اسلام سے کیا تھا،میں دلائل کا اختتام بھی اسلام پہ کرنا چاہتا ہوں،کفر اسلام سے پہلے کا لفظ ہے، کفر کا مطلب ہے سچ کو چھپانا، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سچ نہیں بولا جا سکتا، لفظ اسٹیبلشمنٹ کسی قانون کی کتاب میں نہیں لکھا ہوا، کبھی محکمہ زراعت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو کبھی شمالی علاقہ جات کیا جاتا ہے، کیا سچ کو براہ راست نشر نہیں ہونا چاہیے، یہ سپریم کورٹ نے طے کرنا ہے۔
کیس کی سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل جنرل نے کہا وزیر قانون وفاق کے دلائل اپنا رہے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا فروغ نسیم کو خود آکر عدالت میں یہ بات کہنی چاہیے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا صدر مملکت، وزیراعظم اور اٹارنی جنرل نے بھی وفاقی حکومت کے وکیل کے دلائل پر انخصار کیا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا عمران خان کی طرف سے وکالت نامہ جمع نہیں کرایا گیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست پر جج صاحبان سے مشاورت کے بعد جلد فیصلہ جاری کریں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا میری درخواست ہے کہ مختصر حکمنامہ جاری کرکے نظرثانی کیس کو سنا جائے، دس رکنی بنچ کے ایک رکن اگلے ماہ ریٹائر ہو رہے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہمیں اس بارے میں علم ہے۔
پی ایف یو جے کے وکیل رشید اے رضوی نے کہا وہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے دلائل پر انحصار کرتے ہیں۔