وفاقی دارالحکومت اسلام آباد حکومتی میڈیا اتھارٹی کے خلاف صحافی پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے رہے ہیں۔ دھرنے میں متعدد میڈیا ہاؤسز کے صحافی شریک ہیں اور سیاسی رہنما بھی اظہار یکجہتی کیلئے آ رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی دھرنے میں شرکت کی۔ انہوں نے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ آواز دبانے کے لیے قانون لایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک نیا کالا نیا قانون ہے، ہم اس کو بالکل نہیں مانتے۔ قانون بن بھی گیا تو پاکستان کے صحافی اس کے خلاف ڈٹ جائیں گے۔
صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف نے بھی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ کالا قانون پاس نہیں ہونے دیں گے، پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں صحافیوں کے ساتھ ہیں۔ میڈیا نے خود جدوجہد کر کے یہ آزادی حاصل کی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے بھی صحافیوں کے دھرنے میں شرکت کر کے یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے میڈیا اتھارٹی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کی آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر آئینی ادارے کو غیر موثر کیا جا رہا ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے میڈیا پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ایم ڈی اے کا میڈیا کے ساتھ مل کر راستہ روکیں گے۔ پی ایم ڈی اے فسطائی اور مسترد حکومت کا مسترد شدہ کالا قانون ہے۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے احتجاج میں شرکت کے موقع پر کہا کہ حکومت متنازعہ میڈیا اتھارٹی قائم کرنے پر بضد ہے۔ اتھارٹی سے متعلق قانونی مسودہ تاحال پارلیمان کو دیا گیا نہ ہی صحافتی تنظیموں کو۔
اتھارٹی میں ایسا کیا جو حکومت پارلیمان اور صحافیوں سے خفیہ رکھ رہی ہے؟ پی ایم ڈی اے میڈیا کو کنٹرول کرنے کا آمرانہ فیصلہ ہے۔ میڈیا ڈویلپمینٹ اتھارٹی حکومت کی سازش ہے جو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ حکومت کے دل میں چور نہیں تو قانونی مسودہ پیش کرے۔