ڈیجیٹل مردم شماری ہوشربا اعداد و شمار، ڈیرہ اسماعیل خان میں 22 یونیورسٹیاں اور 154 ہسپتال ہیں، آبادی 2017 سے کم ہو گئی۔
ڈیرہ اسماعیل خان: ( حماد خلیل ) حالیہ خانہ و مردم شماری کے ریکارڈ کے مطابق ڈیرہ کے 120 بلاکس میں آبادی کم ہوئی ہے۔ پرائیویٹ اور نان ٹینیکل افراد کو خانہ و مردم شماری کی ذمہ داریاں دینے کے ثمرات منظر عام پر آنے لگے ہیں۔
پاکستان کی ساتویں خانہ و مردم شماری 2023 میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔ملک کی پہلی ڈیجیٹل خانہ و مردم شماری کے ریکارڈ کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں 154 ہسپتال اور 22 یونیورسٹیاں واقع ہیں۔
دامان ٹی وی کی تحقیقاتی رپورٹ میں شہر کے ایسے گھرانے بھی سامنے آئے ہیں جہاں خانہ و مردم شماری کے عملہ نے خانہ شماری نہیں کی اور نہ ہی کوائف اکٹھے کرنے کے لیے ان گھرانوں کا وزٹ کیا ہے۔حالیہ خانہ و مردم شماری میں Enumerators سے سیکیورٹی کے بغیر خانہ و مردم شماری کرانا بھی درست حقائق اور اعداد و شمار کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہے جس سے Enumerators نے اکثر گھرانوں کو شمار نہیں کیا ہے۔ اگرچہ ڈیجیٹل مردم شماری کے آغاز میں ان خامیوں اور نقائص کی جانب توجہ دلائی گئی تھی مگر ادارہ شماریات کی منصوبہ بندی میں فقدان اور ڈسٹرکٹ سینسز آفیسر فرحان احمد کی عدم دلچسپی کے باعث ایسے غلط اور ناقص اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
اس سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں چار مردم شماری کرنے والے ایک Enumerator کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ مردم شماری کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان میں آگاہی مہم نہ ہونے کے برابر رہی ہے اور عوامی سطح پر لوگوں کو اس اہم قومی فریضہ کی اہمیت و افادیت سے قطعی طور پر معلومات نہیں تھیں اور مردم شماری کے دوران ان مسائل اور ایشوز کو حل کرنے کی بجائے مردم شماری کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان غلطیوں اور نقائص پر انحصار کرنا عملہ کو ان کی اجرت دینے میں تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔خانہ و مردم شماری کرنے والے ایک سپروائزر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں انتالیس سپروائزروں کو صرف سولہ دنوں تک کنوینس الائونس کی سہولت فراہم کی گئی اور 16 اپریل کو یہ سہولت سپروائزری سٹاف سے بھی واپس لے لی گئی ہے جبکہ Enumerators اس سہولت سے مکمل طور پر محروم رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ نان ٹیکنیکل اور سرکاری عملہ کی بجائے منظور نظر پرائیویٹ افراد کی مردم شماری میں شمولیت بھی ناقص اعداد و شمار سامنے آنے کی ایک وجہ ہے۔ خانہ و مردم شماری کرنے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ ڈیوائسز میں لوکیشن کا مسئلہ اکثر درپیش رہا ہے اور اسے manually طور پر حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ جو افراد اپنے کوائف اور معلومات enumerators کو دینے سے انکاری رہے ان کی خانہ و مردم شماری کی بجائے شمار کنندہ درج کر کے دوسرے گھرانے کی خانہ و مردم شماری کی گئی ہے اور اس سے بھی ٹوٹل مردم شماری پر فرق پڑا ہے بلکہ بعض ایسے Enumerators بھی تھے جنہوں نے عجلت میں ایک گھر میں خاندان کے صرف ایک فرد کو شمار کر کے اپنے بلاک میں شامل گھرانوں کی مردم شماری کی۔ سماجی حلقوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی آبادی کم ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مصدقہ کوائف اور معلومات کا درست اندراج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام رہائشی افراد کا ڈیٹا ریکارڈ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں چھ سال کے بعد ہونے والی مردم شماری میں آبادی کی کمی پر ایک اینموریٹر نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آبادی کی شرح میں مقررہ اضافہ کی بجائے کمی محکمہ بہبود آبادی کی غیر معمولی کاوش بھی ہو سکتی ہے جس کے باعث آبادی میں اضافہ کی بجائے کمی واقعی ہوئی ہے۔