ڈیرہ بورڈ +مطالبات+ حقائق

انٹرمیڈیٹ کے حالیہ سوشل میڈیا پر گردش کرتی خبر کہ چیئرمین ڈیرہ بورڈ کے میڈیا کو دیئے گئے بیان جس میں امتحانی پرچہ جات کو امیدواروں کو دکھانے کی آفر کو کنٹرولر ڈیرہ بورڈ ڈاکٹر قیصر انور نے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
مبینہ طور پر چیئرمین بورڈ ڈاکٹر احسان اللہ نے ڈاکٹر قیصر انور کو زبانی ہدایات دیں کہ کوہاٹ بورڈ کی طرز پر پرچے طلبہ کو دکھائے جائیں جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ پرچے دکھانے کے حوالے سے قواعد و ضوابط کے تحت مجاز اتھارٹی بورڈ ایکٹ، بورڈ کیلنڈر یا کسی بھی عدالتی فیصلہ کی روشنی میں باقاعدہ لیٹر جاری کیا جائے جس میں TORs طے کیے جائیں کہ کن طلبہ کو پرچے کس طریقہ کار کے تحت دکھائے جائیں؟
جس پر چیئرمین بورڈ ڈاکٹر احسان اللہ نے ایسا کوئی لیٹر جاری کرنے سے معذرت کر لی ہے۔
دوسری جانب پرائیویٹ ادارے جو لائق اور محنتی طلبہ کو فری سکالرشپس جیسی مراعات دے کر ایک بڑی تعداد میں بچوں کو زیور علم سے آراستہ کر رہے ہیں ان کے تین مطالبات سامنے آئے ہیں کہ فیل طلبہ کو پرچے دکھائے جائیں، ٹاپ 20 طلبہ کے پرچے ویب سائٹ پر اپلوڈ کیے جائیں اور امتحانی فیسیں کم کی جائیں۔
معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے سے سوال ہے کہ PEN کے مطالبات اور چیئرمین بورڈ ڈاکٹر احسان اللہ کے سوشل میڈیا پر گردش کرتے بیانات کی روشنی میں یہ تمام مطالبات کیا کسی بھی کنٹرولر کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں؟ کیا ایک کنٹرولر ازخود یہ فیصلہ کر سکتا ہے جبکہ صوبے کے آٹھوں تعلیمی بورڈز کے چیئرمینوں پر مشتمل BOG یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہے یا حکومتی پالیسی کی روشنی میں ان پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔
حیران کن طور پر خیبر پختونخوا کے 8 تعلیمی بورڈز میں سب سے اچھا رزلٹ 84% ڈیرہ بورڈ کا رہا ہے اس کے باوجود سوشل میڈیا پر صرف کنٹرولر ڈیرہ بورڈ کے خلاف پروپیگنڈا دال میں کچھ کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے کے مصداق ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں