ماضی کی عالمی طاقتوں نے انیسویں صدی میں افغانستان کوگریٹ گیم کا میدان کازار اُس وقت بنایا جب روس کی ملکہ کیتھرائین دی گریٹ نے گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کا منصوبہ بنایا،زارِِِ روس کے اِسی پلان کو ناکام بنانے کی خاطر برطانیہ نے افغانستان کو نسلی تعصب،تشدد اورخون ریزی کا جہنم بنا کے روسی عزائم کے سامنے آگ و خون کی دیوارکھڑی کر دی،پچھلے ڈیڑھ سو سال میں افغانستان میں لڑی گئی تمام جنگووں کا محور یہی گریٹ گیم تھی لیکن تقدیر نے تدبیر مخفی سے اِن بے رحم مغربی قوتوں کو افغانستان کے اُسی دلدل میں پھنسا دیا جس میں وہ دوسروں کو ٹریپ کرنے کی سازشیں کرتے رہے۔آج افغانستان سے دنیا کی واحد سپرپاورکی شرمناک پسپائی نے جہاں ڈیڑھ سو سالوں پہ محیط گریٹ گیم کے خاتمہ کی نوید سنائی،وہاں اسی تغیر نے پیراڈائم شفٹ کے اُس پہلے مرحلہ کی تکمیل کا ناقوس بھی بچا دیا،جس کے ذریعے طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہونے والا ہے۔لاریب،افغانستان میں امریکی جارحیت کا بنیادی مقصد تیزی سے معاشی ترقی کی منزلیں طے کرتے چین اور دنیا کے نقشہ پہ ابھرنے والی پہلی مسلم ایٹمی طاقت پاکستان کو کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں میں الجھاکے برباد کرنا تھا لیکن چینی اور پاکستانی مقتدرہ نے نہایت تحمل اور کمال حکمت و دانائی کے ساتھ نہ صرف اس خطہ کو اِس نامطلوب جنگ کے مہیب شعلوں سے بچایا بلکہ خاموش مزاحمت کے ذریعے دنیا کی واحد سپر پاور کو بدترین شکست کا مزہ چکھا کے جنگ عظیم اول کے بعد مسلط ہونے والے عالمی استعماری نظام کی ہیت ترکیبی بدل ڈالی۔افغانستان سے امریکی انخلاءمعمولی واقعہ نہیں بلکہ یہ اسقدر وسیع و عمیق تغیرات کا پیش خیمہ ہے جس سے عالمی سیاست کا اجتماعی ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا،پہلی جنگ عظیم کا اختتام جس طرح سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ پہ ہوا تھا اِسی طرح افغانستان سے امریکہ کی پسپائی بھی دنیا پہ یہود و نصاریٰ کی حاکمیت کے خاتمہ کا وسیلہ بنے گی۔شاید اسی تناظر میں افغانستان میں اقتدار کی پُرامن منتقلی پہ تبصرہ کرتے ہوئے چین کے سرکاری میڈیا نے کہا کہ کابل میں جس پُرامن انداز میں انتقال اقتدار ہوا اس طرح تو امریکہ میں انتخابی عمل کے ذریعے بھی اقتدار کی ہموار منتقلی نہیں ہوتی۔مغربی دنیا کو توقع تھی کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی غیرملکی فورسیسز کے انخلاءکے بعد افغانستان کے طول و ارض میں شورش بھڑک اٹھنے گی،چنانچہ عالمی میڈیا نے اِس عظیم انسانی المیہ کو جس طرح لعنت بنا کے پیش کیا وہ ان کی دانشورانہ بدنیتی کا غماض تھا۔امریکی آخری دم تک افغان تنازعہ کو جنوبی ایشیا میں کسی بڑی جنگ کا ذریعہ بنانے کی سعی کرتے رہے کیونکہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں واحد سپر پاورکی پسپائی دراصل مغربی تہذیب کے اُس مقبول بیانیہ کی عبرتناک شکست تھی جسمیں وہ وحشیانہ دہشتگردی کو اسلام سے جوڑ کے مستقبل کے عالمی تمدن کو مغربی تہذیب کے رنگ میں ڈھالنا چاہتے تھے،بلاشبہ یہ تہذیبوں کی جنگ تھی، ہم جانتے ہیں کہ اِس ذہنی شکست کو مغربی تہذیب کے فرزند آسانی سے ہضم نہیں کریں گے لیکن اب وہ اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے سکت کھو رہے ہیں،مغرب کی طویل عیش و عشرت کی بوریت سے تھکی ہوئی نوخیز نسلیں اب دنیا کی امامت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں،اس لئے فطرت نے مشرق کے لبریز الم معاشروں میں پروان چڑھنے والی اُن فعال نسلوں کو چُن لیا،جنہوں نے اپنے اداس بچپن،گداز جوانیاں اور مغموم بوڑھاپے بھی غربت و افلاس سے لڑنے اور مسلط کردہ جنگوں کی آگ میں جلا ڈالے۔اس وقت مغرب کا تہذیبی فلسفہ اور سیاسی بیانیہ شکست کھا کے پوری طرح برباد اور مغربی تمدن کی روحانی کشش دم توڑ رہی ہے۔چنانچہ صرف پندرہ دنوں میں طالبان نے جس سرعت کے ساتھ پورے افغانستان کو مسخر کیا یہ مشرق کے نئے عہد کی طلوع اور مغربی تہذیب کے زوال کی نمایاں نشانی تھی۔اگرچہ بہت سے ماہرین پیش گوئی کر رہے تھے کہ امریکی فوجیوں کے انخلاکے بعد طالبان ملک کا کنٹرول سمبھال سکتے ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو اتنی تیزی سے امریکی بندوبست کے زوال کی توقع تھی۔کبھی سوچا جاتا تھا کہ کابل پر طالبان کا قبضہ برسوں کی بات ہے تاہم یہ مہینوں یا ہفتوں میں بھی قابل فہم تھا لیکن ایک گولی چلائے بغیرکابل کی گھنٹوں میں تسخیر کا تصور بعیداز قیاس تھا۔عالمی میڈیا طالبان کے مفروضہ مظالم اور منظم زیادتیوں کی تشہیر کے ذریعے خوف کی فضا بنا کر افراتفری بڑھانے کی کوشش میں مشغول رہا لیکن طالبان نے اپنے ڈیٹرینٹ کو مومنانہ بصیرت سے استعمال کرکے نہ صرف کابل کو خون ریزی سے بچایا بلکہ وہاں کی سماجی زندگی کے دھارے میں رخنہ اندوزی نہ کرکے اجتماعی حیات کو بھی ریگولیٹ کر لیا،پچھلے دو ماہ میں پورے افغانستان کی تسخیر کے باوجودکہیں سے بھی ایسی خون ریزی کی اطلاعات نہیں ملی،جس کی منظر کشی عسکریت پسندوںکی حکمرانی کے تاریک دورکی واپسی کے طور پہ مغربی میڈیا میںکی جا رہی تھی۔ فاتح کی حیثیت سے طالبان جب کابل میں داخل ہوئے تو ان کی جبین نیاز اپنے رب کے سامنے جُھکی ہوئی تھی،ہرات میں داخل ہونے والے طالبان کمانڈر بھی اشک بار آنکھوں کے ساتھ مرکزی جامع مسجد میں داخل ہوئے۔مہذب دنیا کے فعال میڈیا نے پکڑے گئے افغان فوجیوں کی پھانسیوں کی جھوٹی خبریں،غیر روایتی لباس پہنے والی خواتین کو زدوکوب کرنے کے شوشے،جبری شادیاں اور سول سوسائٹی کے رہنماو¿ں اور صحافیوں کے قتل کی افواہیں پھیلا کے شہری آبادیوں میں خوف و ہراس پھیلاکے نقل مکانی کا جو بحران پیدا کرنا چاہا،وہ نہیں ہو سکا۔طالبان کی جنگی حکمت عملی کے با
رے مغربی مفکرین کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے،انہوں نے صوبائی دارالحکومتوں کو بغیر کسی خون خرابہ کے مسخر کرکے بڑے شہروں کے باہمی رابطے منقطع کر دیئے،آمدنی اور ساز وسامان جیسے وسائل کو دارالحکومت تک محدود کرکے تیزی سے کابل کو پورے ملک سے الگ تھلگ کر دیا،کابل کی تسخیر سے قبل ہی طالبان افغانستان کی زیادہ تر سرحدی گزرگاہوں کا کنٹرول سمبھال چکے تھے۔طالبان کے زیر کنٹرول اضلاع کے نقشہ سے واضح ہے کہ کابل شمال،جنوب اور مغرب سے محاصرہ میں تھا،گھیراوکی حکمت عملی کا مقصد وقت کے ساتھ حکومت کی طاقت کو تحلیل کرنا تھا۔طالبان کی حکمت عملی کے عین مطابق نفسیاتی دباو¿ کے نتیجہ میں اشرف غنی اقتدار کی پُرامن منتقلی پہ رضامند ہو گیا۔یہ طالبان کی مومنانہ بصیرت کا اعجاز تھا جس کے نتیجے میں کابل میں طاقت کا ایسا توازن پیدا ہوا جسے مختلف نسلی اور سیاسی دھڑوں نے بسر و چشم قبول کرلیا۔طالبان کے قبضہ کا سرعت پذیر منظر ہی دراصل وہ نفسیاتی حربہ تھا،جس کے نتیجے میں حتمی فتح ناگزیر ہوئی۔اگرچہ تاریخی طور پر افغانستان میں اقتدار اس طرح اکثر ہاتھوں میں بدلتا رہا۔1996 میں مستحکم مگر ناتجربہ کار طالبان کی پیش قدمی نے تیزی سے کابل کے دفاع کو تباہ کیا،طالبان بمشکل ایک دن کے نوٹس سے شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہ منظر ماضی میں طالبان کی پیش رفت کی روشنی میں زیادہ ممکن نظر آیا اور اسی نے طالبان کو زیادہ سے زیادہ فوائد فراہم کرکے ممکنہ طور پر ان کی امارت اسلامی کی واپسی کی راہ ہموار بنائی۔اس سے قبل صدر بائیڈن، افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز کو فضائی مدد اور دیگر وسائل فراہم کرنے کی یقین ہانی کے ساتھ لڑنے کی ترغیب دیتے رہے۔صدر غنی نے مزار شریف کے رہنماو¿ں سے ملاقات کرکے سیاسی محرکات میں اضافہ کی کوشش کی تاکہ وہ طالبان کے خوف خلاف مقامی مزاحمت کھڑی کر سکیں،صدر اشرف غنی نے سنیچر کے روز ویڈیو پیغام میں مستعفی ہونے کی بجائے حتمی مزاحمت کا عندیہ دیکر اپنی فورسیسز کو ایسی مزاحمت پر ابھارنے کی کوشش جو نئی جنگ کی اساس بن سکتی تھی۔ماہرین کہتے ہیں اگر اے این ڈی ایس ایف طالبان کو بڑے شہروں اور تمام ترمواصلاتی راستوں پر قبضہ کرنے سے روک لیتی تو یہ افغان فورسز کو امریکہ اور نیٹو کے اہل کاروں کے بغیر لڑائی کی نئی حقیقت سے ہم آہنگ ہونے کا وقت فراہم کرتی،جنگ واپس طالبان کے کوٹ میں لوٹ جاتی اوراسی سے جنوبی ایشیا پھر ایک گھمبیر جنگ کی لپیٹ میں آ جاتا۔افغان گورنمنٹ کسی بھی سنجیدہ سیاسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے مذاکرات کی آڑ میں طالبان کی رفتار کو کچھ دیر کے لئے روکنے میں کامیاب ہو جاتی یا طالبان اگر زیادہ تیزی سے کنٹرول سنبھالنے میں تاخیر کرتے تو طالبان سمیت خطہ کے ممالک کو مشکل چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا،بلاشبہ اگر طالبان مخالف قوتوں کو دوبارہ منظم ہونے کے لئے کچھ وقت دیتے تو جوابی مزاحمت زیادہ سنگین ہوتی مگر جب تک جامع سیاسی تصفیہ کی کوئی متوازن تجویز سامنے نہ ہوتی طالبان کی رفتار کو کم کرنا آسان نہیں تھا۔اگرچہ مغربی ذرائع ابلاغ یہ باور کراتے رہے کہ اس خطہ میں کوئی بھی طالبان کی فتح کے بعد کے مناظر دیکھنے کو تیار نہیں لیکن جیسے جیسے طالبان غلبہ پاتے گئے چین، روس اور ایران سمیت خطہ کی چھوٹی بڑی طاقتیں ازخود ان سے ہم آہنگ ہوتی گئیں۔لاریب،افغانستان پہ طالبان کے غلبہ سے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے باہمی رابطوں میں پائی جانے والی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی، دہشتگردی کی مہیب لہریں اور علیحدگی کی وہ بیکار تحریکیں دم توڑ دیں گی،جنہوں نے خطہ کے ممالک کے مابین بدگمانیوں کی زہریلی فصل کاشت کی۔البتہ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں مقیم بلوچ اور پشتون علیحدگی پسندوں کا مستقبل کیا ہو گا۔