سینئیر صحافی اور اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے جمعرات کو گلوبل نیبر ہوڈ فار میڈیا انوویشنز کی کیپسٹون لانچ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا دنیا کا پانچواں ملک ہے۔ اس کے باوجود مین اسٹریم میڈیا پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل پر توجہ نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل نیوز سٹارٹ اپ اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ تقریب کراچی کی ایک غیر سرکاری تنظیم گلوبل نیبر ہوڈ فار میڈیا انوویشنز کے پاکستان انٹرپرنرئیل جرنلزم پروگرام کے تحت منعقد کی گئی تھی۔ گلوبل نیبر ہوڈ فار میڈیا انوویشنز کے اس پروگرام کے تحت پاکستان بھر سے چھیاسٹھ صحافیوں کو ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے نیوز پلیٹ فارم بنانے کی تربیت دی گئی ہے جن میں سے بیس صحافیوں کے نیوز پلیٹ فارمز کو اس تقریب میں لانچ کیا گیا ہے۔
تقریب چار حصوں میں تقسیم تھی۔ صنفی نمائندگی اور سوشل میڈیا، ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز اور صحافتی اخلاقیات، ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنا ضرورت ہے انتخاب نہیں، معیشت اور کم زور معاشرتی اقدار۔
غریدہ فاروقی ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنا ضرورت ہے انتخاب نہیں، کے سیشن میں شامل تھیں۔ اس سیشن میں ان کے ہمراہ صحافی عافیہ سلام، ذوفین ابراہیم، فیصل کریم اور عظمیٰ الکریم بھی موجود تھے۔
غریدہ فاروقی نے کہا کہ جو پراجیکٹس ان کے سامنے پیش کیے گئے وہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور جنگلی حیات کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے جی این ایم آئی کی تعریف کرتے ہوئے کہا وہ پاکستان میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر صحافت کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
صحافی ذوفین ابراہیم نے کہا کہ جب تک ہم ان موضوعات پر بات نہیں کریں گے تب تک ہمارا فطرت کی طرف رویہ نہیں بدلے گا۔ کرونا اور سارس جیسی عالمی وبائیں جانوروں سے ہی انسانوں میں منتقل ہوئی ہیں۔ لوگوں کو بتانا بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے ماحول سے کس طرح صحت مندانہ اور محفوظ رابطہ رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ زمین صرف ہماری نہیں ہے۔ یہ دیگر حیات کی بھی ہے۔ ہمیں ان کا بھی دھیان رکھنا چاہئیے ورنہ ہم ماحول کو مزید تباہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سٹارٹ اپ اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
عافیہ سلام نے کہا کہ جی این ایم آئی میڈیا ڈیولپمنٹ میں کام کرتا ہے۔ اس کی طرف سے ایسے پراگرامز کا آنا خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کئ حالات ایسے رہے ہیں کہ میڈیا کا فوکس صرف سیاست پر رہا ہے۔ اسے ماحول کو بھی برابر کی توجہ دینی چاہئیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ یہ ایک جگہ تک رک کر نہیں رہتی۔ اس کا اثر سب پر ہوتا ہے۔ اسے میڈیا کے ذریعے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے انسانوں پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ایسے مسائل نظر انداز ہونے کی وجہ سے بڑے ہو کر خود بخود اخباروں کے فرنٹ پیج پر آ جاتے ہیں لیکن ہمیں پہلے سے ہی ان پر کام کرنا چاہئیے۔
عظمیٰ الکریم نے کہا کہ صرف کراچی کی بات کی جائے تو وہیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات واضح طور پر سامنے آ چکے ہیں پھر بھی وہ میڈیا میں جگہ نہیں بنا سکے۔ وہ بھی مین اسٹریم میڈیا پر ان مسائل پر بات نہیں کر سکیں۔ ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز ان موضوعات پر کھل کر بات کر سکتے ہیں۔
اینکر پرسن فیصل کریم نے کہا کہ وہ اس تقریب کے بعد کراچی کے ماحولیاتی مسائل پر کام کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی بھی ان مسائل میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمیں بطور قوم دیکھنا چاہئیے کہ ہم اپنے ماحول کی حفاظت کے لیے کیا کر رہے ہیں۔
ناجیہ اشعر نے کہا کہ شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد صحافیوں کو مختلف شعبہ جات کے ماہرین سے سیکھنے کا موقع فراہم کرنا تھا تاکہ وہ اپنے کام میں جدت لاتے ہوئے ڈیجیٹل میڈیا کا فائدہ اٹھا سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان انٹرپرنئیریل جرنلزم پراگرام پاکستان میں اپنی طرز کا پہلا پروگرام ہے جس کے ذریعے چھیاسٹھ صحافیوں کو ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے نیوز پلیٹ فارم بنانے کی تربیت دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا میں ڈس انفارمیشن کے خاتمے اور صحافیوں کے لیے نئے معاشی مواقع ڈھونڈنے کے لیے یہ پروگرام بہت ضروری تھا۔ اس پروگرام میں صحافیوں کو ٹیکنالوجسٹ اور انڈسٹری ایکسپرٹ کے ساتھ بٹھایا تاکہ یہ ان سے ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے سٹارٹ اپ چلانا سیکھ سکیں۔
ناجیہ اشعر نے 2017 میں گلوبل نیبرہوڈ فار میڈیا انوویشنز (جی این ایم آئی) کی بنیاد رکھی تھی۔ جی این ایم آئی پاکستان میں میڈیا کی ترقی کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کے مختلف پراگرامز کے تحت صحافیوں کو مختلف طرح کی تربیتی ورک شاپس فراہم کی جاتی ہیں۔