ایس سی او کانفرنس کا آغاز، پاک چین سی پیک معاہدوں پر دستخط

اسلام آباد : ایس سی او کانفرنس کا آغاز آج سے اسلام آباد میں ہورہا ہے۔یاد رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے لیے چین، بھارت، روس، ایران اور کرغزستان سمیت مختلف ممالک کے وفود پاکستان پہنچ چکے ہیں , جبکہ اس کے درمیان چینی وزیر اعظم کی آمد کے فوراً بعد پاک چین سی پیک مختلف معاہدوں پر دستخط کی تقریب میں وزیر اعظم پاکستان شہبازشریف اور چینی وزیراعظم لی چیانگ شریک ہوئے۔
دونوں ملکوں کے درمیان اسمارٹ کلاس رومز کے حوالے سے دستاویزکا تبادلہ کیا گیا، اس کے علاوہ سی پیک کے تحت گوادرپر7ویں جوائنٹ ورکنگ گروپ کے اجلاس کے نکات کی دستاویز کا بھی تبادلہ ہوا۔ تقریب میں پاکستان اور چین کے درمیان انسانی وسائل کی ترقی سے متعلق دستاویزکا تبادلہ کیا گیا، دونوں ملکوں کے درمیان اطلاعات اورمواصلات کے شعبوں میں تعاون سے متعلق مفاہمتی یادداشت کا بھی تبادلہ کیا تقریب میں پاکستان اورچین کے درمیان غذائی تحفظ کے شعبے میں بھی مفاہمتی یادداشت پیش کی گی، دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ لیبارٹریوں کے قیام، پاکستان اور چین کے درمیان کرنسی کے تبادلے کی مفاہمتی یادداشت کا بھی تبادلہ کیا گیا، کرنسی تبادلے کامعاہدہ اسٹیٹ بینک اور پیپلزبینک آف چائنہ کے درمیان طے پایا تقریب کے دوران پاکستان اور چین کے وزرائے اعظم نے گوادرانٹرنیشنل ایئرپورٹ کا ورچوئل افتتاح کیا۔
پاکستان اور چین کے درمیان مختلف معاہدوں پر دست تقریب سے خطاب کرتے ہوئےچینی وزیراعظم لی چیانگ نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے چین اپنا کرداراداکرتا رہے گا۔ گوادرانٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تکمیل اہم سنگ میل ہے، منصوبے کی تکمیل کے لیے پاکستان اور چین کی افرادی قوت کی کاوشیں قابل ستائش ہیں، گوادرعلاقائی ترقی کا محور ہونے کے ساتھ دونوں ملکوں کی مضبوط دوستی کابھی عکاس ہے۔ چینی وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے عوام کی خوشحالی ہمارے دل کے بہت قریب ہے، دونوں ملکوں کی تذویراتی شراکت داری وقت کے ساتھ گہری ہو رہی ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور چین نے صنعت، زراعت اور تجارت کے شعبے میں متعدد مفاہمتی یادداشتوں کا تبادلہ کیا ہے، دوطرفہ معاہدے دونوں دوست ملکوں کے درمیان نئے باب کااضافہ ہے۔ پاکستان کی ترقی کے لیے چین کے پختہ عزم کے معترف ہیں، معاشی ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں چین نے نمایاں کرداراداکیا، گودار انٹرنیشنل ایئرپورٹ دونوں ملکوں کی مضبوط دوستی کامظہر ہے۔
اس سے پہلے اسلام آباد پہنچنے پر چینی وزیراعظم لی چیانگ کا وزیر اعظم شہباز شریف، وزیرخارجہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی اور دیگر اعلیٰ حکام نے چینی وزیراعظم نور خان ائیر بیس پر شانداراستقبال کیا۔ چینی وزیراعظم کو بچوں نے انہیں گلدستہ پیش کیا۔ پاکستان آمد پر چینی وزیراعظم کو21 توپوں کی سلامی دی گئی اور گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا یہ کسی بھی چینی وزیراعظم کا 11 سال بعد پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی چینی وزیراعظم لی چیانگ کا پرتپاک استقبال کیا، چینی وزیراعظم نے گرمجوشی سے آرمی چیف سے مصافحہ کیا۔پاکستان آمد کے بعد چینی وزیراعظم لی چیانگ نے اپنے پیغام میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم سربراہان حکومت کی 23ویں میٹنگ میں شرکت کرنے اور وزیراعظم شہبازشریف کی دعوت پر پاکستان کادورہ کرنے پربہت خوشی ہے۔ چینی وزیراعظم نے کہا کہ جیسےہی میں جہاز سے اترا، مجھے گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا، پاکستانی عوام کی گہری برادرانہ دوستی اور مہمان نوازی نے متاثر کیا، پاکستان ایک اہم ترقی پذیر ملک، ابھرتی ہوئی منڈی اور بڑا مسلم ملک ہے جب کہ پاکستان چین کا ہر موسم کا اسٹریٹجک تعاون کرنے والا ساتھی اور آہنی دوست ہے۔ لی چیانگ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو چینی عوام بہت پسند کرتے ہیں اور سراہتے ہیں ، 73سال میں دونوں ممالک نےمستقل اعتماد قائم رکھااورایک دوسرےکی حمایت کی، چین پاکستان تعلقات دوطرفہ ریاستی تعلقات کی ایک عمدہ مثال بن گئے ہیں۔ واضح رہے شنگھائی تعاون تنظیم کا دورہ روزہ اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے جارہا ہے جس میں مختلف ممالک کے وزرائے اعظم سمیت اعلیٰ حکام شرکت کریں گے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی دعوت پر چین کے وزیراعظم لی چیانگ 14 سے 17 اکتوبر تک پاکستان کا دورہ کررہے ہیں۔واضح رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس ای او) علاقائی، سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تنظیم ہے، اس تنظیم کو ابتدا میں چین اور روس نے قائم کیا تھا، چین، روس، قازقستان، کرغزستان، ازبکستان اور تاجکستان ایس ای او کے ممبر ملک تھے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل ارکان کی تعداد 10ہے، 3 ممالک مبصر اور 14 ممالک ڈائیلاگ پارٹنرز کی حیثیت سے تنظیم سے منسلک ہیں۔پاکستان اور بھارت نے جون 2017 ایران نے 2023 مستقل ممبرز کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی جب کہ بیلاروس نے 2024 میں تنظیم کے مستقل ممبرز کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ایس سی او دنیا کی 40 فیصد آبادی اور جی ڈی پی کا تقریباً 32 فیصد حصہ رکھتی ہے، سربراہان مملکت کی کونسل شنگھائی تعاون تنظیم میں سب سے بڑا فیصلہ سازی کا حامل فورم ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس رکن ممالک کے دار الحکومت یاکسی ایک شہر میں ہر سال منعقد ہوتا ہے۔ایس سی او تنظیم کے اہداف میں دوستانہ ہمسائیگی، تجارت، سائنس وٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، سیاحت کے شعبوں میں تعاون، خطے میں امن و امان اور سلامتی کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا شامل ہے۔وزیر اعظم لی کا دورہ اسلام آباد پاکستان اور چین کی جانب سے “آل ویدر اسٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ” کی اہمیت کا اظہار ہے۔ یہ دونوں فریقوں کے لیے بنیادی دلچسپی کے امور پر باہمی تعاون کی توثیق کرنے کا موقع ہوگا۔ CPEC کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو آگے بڑھانا اور اہم علاقائی اور عالمی پیش رفت پر باقاعدہ تبادلوں کو تقویت دیناہے یاد رکھیں کہ پاکستان اور پاکستان کے لوگ اس تعلق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور فخر سے چین کو ا پنا بہترین دوست قرار دیتے ہیں جبکہ چینی قوم بھی آہنی بھائی کی اصطلاح فقط پاکستان کے لیے استعمال کرتی ہے۔
پاک چین تعلقات بہت خاص نوعیت کے حامل ہیں۔ یہ بھائی چارے ‘ دوستی اور اعتماد کا وہ باب ہے جس کی بنیاد ستر سال سے زائد عرصہ قبل رکھی گئی تھی۔دونوں ممالک کی اس وقت کی قیادت نے انتہائی بالغ نظری سے ایک مستحکم تعلق کا آغاز کیا جو ہر گزرتے برس کے ساتھ ساتھ مزید مؤثر‘ مضبوط اور توانا تر ہوتا گیا۔ نہایت مہارت اور ہوشمندی سے تشکیل دیا گیا یہ خاص تعلق وقت کی ہر آزمائش پر پورا اترا ہے اور لمبے عرصے کی تزویراتی شراکت پر محیط ہے۔
پاکستان 1947ء میں قائداعظم کی قیادت میں آزاد ہوا جبکہ چین 1949ء میں مائوزے تنگ کی عظیم قیادت اور اُن کے لانگ مارچ کے ثمرات کے نتیجہ میں آزاد ہوا۔ 1949ء میں چین کی آزادی کے ساتھ ہی پاکستان اور چین کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان نے چین کی آزادی کو تسلیم کیا یہ پاکستان اور چین کی دوستی کا نقطہ آغاز تھا یا اسے اِس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان اور چین کی دوستی کی ابتدا تھی۔ پاک بھارت جنگ میں چین نے پاکستان کا ہر طرح ساتھ دیا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی اور اپنی سچی دوستی کا حق نبھایا اِس جنگ میں چین نے پاکستان کی حمایت میں جو کردار ادا کیا وہ مثالی تھا اور پاکستان اور چین کی دوستی ایک مثالی دوستی میں تبدیل ہو گئی۔جب 1949 میں چین آزاد ہوا تو امریکا اور چین کے تعلقات اتنے بہتر نہیں تھے بلکہ کشیدگی کی طرف مائل تھے لیکن پاکستان کی کئی سالوں پر مشتمل مسلسل کوشش اور مخلصانہ جدوجہد کے نتیجہ میں اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا دورہ کیا۔ اس طرح امریکا اور چین کے تعلقات بہتر ہونا شروع ہو گئے اور چین کا عالمی برادری میں ایک مقام پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ چین کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت مل گئی اور چین کو اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کا حق مل گیا۔ پاکستان کے اِس کردار کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بہت بلند ہو گیا۔
چین نے ہر موقع پر پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو نبھایا ہے۔ چین نے پاکستان کی دُنیا کی تمام مخالفتوں کے باوجود ٹینک سازی اور طیارہ سازی میں بھرپور مدد کی جس کی وجہ سے پاکستان کی اسلحہ سازی کی صنعت نے بہت ترقی کی اس کے علاوہ چین پاکستان کی مختلف دفاعی منصوبہ جات میں بھرپور مدد کر رہا ہے جس کی وجہ سے چین اور پاکستان کے تعلقات میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔چین توانائی اور دیگر بہت سے منصوبہ جات میں جن میں سینڈک کا منصوبہ، گوادر پورٹ کا منصوبہ پاکستان کو ریلوے انجن کی فراہمی اور دیگر بے شمار ایسے منصوبہ جات ہیں جن میں پاکستان کو چین کی بھرپور مدد حاصل ہے جس سے پاکستان اور چین دوستی کے ایک ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔چین کے ساتھ قریبی دوستی کو پاکستانی عوام کی مستقل حمایت حاصل ہے۔بے مثال دوستی پر مبنی دو برادر ممالک کا یہ بھائی چارہ وقت کے ہر امتحان پر پورا اترتا آیا ہے اور دونوں ممالک ہر قسم کے تغیرات زمانہ سے بے نیاز ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔دونوں ممالک کے عوام کے مابین محبت و الفت کا یہ رشتہ درحقیقت ’’پہاڑوں سے بلند‘ سمندر سے گہرا اور شہد سے میٹھا‘‘ ہے۔چین کے پہلے وزیراعظم چو این لائی نے ایک بار کہا تھا چین اور پاکستان کے عوام کے درمیان دوستانہ روابط زمانہ قدیم سے ہیں۔ یقیناً پاک چین تعلقات ہمارے لوگوں کے درمیان موجود قدیم تہذیبی رشتوں کا تسلسل ہیں۔دونوں ممالک کے باہمی تعاون اور تزویراتی شراکت کا یہ پودا اب ایک تناور درخت بن چکا ہے اور اس کی پیار بھری جڑیں ہمارے لوگوں کے دلوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ پاکستان سی پیک کے دوسرے مرحلے میں اعلیٰ معیار کے حامل منصوبوں پر کام کے لیے تیار ہے اور دوسرے مرحلے کی کامیاب تکمیل کے لیے پر عزم ہے۔ پاکستانی سی پیک کو ترقی اور روزگار کی فراہمی کا اہم ذریعہ جانتے ہیں اور سبز معیشت ‘ نئی ٹیکنالوجی‘ مل جل کر ترقی کرنے اور کھلی معیشت کے لیے چین کی تجاویز سے ا تفاق کرتے ہیں۔
سی پیک اقتصادی خوشحالی اور رابطے کے حوالے سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے خواب کی بہترین تعبیر کے طور پر سامنے آیا ہے۔
سی پیک پاکستان کے سماجی و اقتصادی منظر نامے میں انقلابی تبدیلیاں لاتا جا رہا ہے۔ اس سے جدید انفرااسٹرکچر وجود میں آیاہے‘ علاقائی رابطے بہتر ہوئے ہیں‘ توانائی کی کمی پوری ہوئی ہے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
گُزشتہ سال چین پاکستان اقتصادی راہداری کی دس سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے صدر شی جن پنگ کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے چین کے نائب وزیراعظم ہی لائفنک پاکستان تشریف لائے تھے۔چینی ریاستی کونسل کی جانب سے حال ہی میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بی آر آئی مشترکہ مستقبل کی عالمی برادری کا ایک اہم ستون ہے۔
بی آر آئی کے بعد سامنے آنے والے تصورات بشمول گلوبل ڈویلپمنٹ انیشٹیو ‘ گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشیٹو سے ’’مشترکہ کمیونٹی‘‘ کا تصور مزید واضح ہو جاتا ہے۔پاکستان بی آر آئی میں شامل ہونے والے اولین ممالک میں سے ہے۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے پرچم بردار کے طور پر سی پیک پاک چین تعلقات میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
سی پیک کے ذریعے اقتصادی تعاون اور کنیکٹوٹی پاک چین تعلقات کا مرکزی نقطہ بن چکے ہیں اور اس وقت دونوں ممالک پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
چینی تصور تیان زی ہے جسے ہم اردو میں ’’آسمان کے نیچے ہم آہنگی‘‘ کہہ سکتے ہیں‘ پوری دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہے اور پائیدار امن کے لیے تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی تعاون پر زور دیتا ہے۔
چینی صدر شی بین الاقوامی تعاون و تبادلے کے خیال تازہ کے مؤجد ثابت ہوئے ہیں اور انھوں نے دنیا کی آپسی جڑت کا اچھوتا مگر قابل عمل ماڈل پیش کیا ہے جس کی عملی شکل بتدریج سامنے آتی جا رہی ہے۔اس مدبرانہ تصور کا مرکزی نکتہ ایک ایسی سماجی اور اقتصادی ترقی ہے جس میں سب شامل ہوں‘ سب کا فائدہ ہو اور سب کی فتح ہو۔
یہ ایک آپس میں جڑی ہوئی صاف ستھری‘ پرامن اور خوبصورت دنیا کا تصور ہے۔ ایک ایسی دنیا جو سب کے لیے ہے اور جس میں کسی کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔جوں جوں ہم اس خیال کی گہرائی میں اترتے ہیں‘ ہمیں واضح ہوتا جاتا ہے کہ یہ تصور قدیم چینی فلسفے اور حکمت پر مبنی ہے۔چینی تصور تیان زی ہے جسے ہم اردو میں ’’آسمان کے نیچے ہم آہنگی‘‘ کہہ سکتے ہیں‘ پوری دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہے اور پائیدار امن کے لیے تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی تعاون پر زور دیتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان جی ڈی آئی گروپ آف فرینڈز کا بھی ایک اہم رکن ہے اور اس نے اسے مزید ٹھوس شکل دینے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان جی ڈی آئی کے تحت پہلا ترجیحی شراکت دار اورجی ڈی آئی مفاہمت نامے پر دستخط کرنے والا پہلا ملک ہونے کی حیثیت سے تعلیم‘ صحت‘ موسمیاتی تبدیلی اور غربت میں کمی کے شعبوں میں تعاون سے بروقت انداز میں مستفید ہونے کے لیے تیار ہے۔اس طرح ہمیں پائیدار ترقی کے مقاصد بروقت حال کرنے میں مدد ملے گی۔پاکستان جی ایس آئی کی بھی حمایت کرتا ہے اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور کثیر الجہتی اصولوں اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت سے مطابق جانتا ہے۔ مدت سے حل طلب تنازعات اور دہشت گردی سے نقصان اٹھانے کی بنا پر ہم جنوبی ایشیا میں علاقائی امن کو یقینی بنانے کے لیے باہمی احترام پر مبنی بات چیت کی بھی حمایت کرتے ہیں, یہ صدر شی جن پنگ کا ایک اور تاریخی اور بروقت اقدام ہے۔
جس میں تنوع‘ پرامن بقائے باہمی‘ ایک دوسرے سے سیکھنے اور جامعیت کے احترام کو فروغ دیا گیا ہے جو اختلاف اور تفرقہ سے دو چار دنیا میں تہذیب کے درمیان مکالمے‘ امن اور مفاہمت کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد ہمیشہ ’’اندرونی و بیرونی امن‘‘ رہے ہیں۔
لہٰذا‘ صدر شی جن پنگ کی طرف سے پیش کیے گئے ان اہم اقدامات کی توثیق پاکستان کے لیے فطری تھی۔تنازعات ‘ معاشی کساد بازاری‘ غذائی عدم تحفظ‘ سماجی عدم مساوات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے متعدد چیلنجوں سے دوچار دنیا میں پاک چین اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کی ا ہمیت بہت زیادہ ہے۔
یہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے فخر اور سکون کا باعث ہے اور خطے کے اندر اور باہر امن و استحکام کا عنصر ہے۔ ہمارا ماضی‘ حال اور مستقبل کا رشتہ ہے۔ اور کوئی چیز اس حقیقت کو بدل نہیں سکتی۔
ہماری دیرینہ روایات کے مطابق ہم اپنے بنیادی مسائل پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی خود مختاری‘ علاقائی سالمیت‘ اقتصادی استحکام اور جموں و کشمیر کے معاملے پر چین کی اصولی حمایت کے لیے اس کے شکر گزار ہیں۔ ہم ون چائنا پالیسی کے لیے اپنی وابستگی اور تائیوان‘ ہانگ کانگ‘ تبت‘ سنکیانگ اور بحیرہ جنوبی چین سمیت اس کے بنیادی مسائل پر چین کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔
اسٹرٹیجک پارٹنرز اور آہنی بھائیوں کی حیثیت سے پاکستان اور چین مشترکہ مستقبل کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کو یقین ہے کہ ہماری دوستی آنے والے دنوں میں مزید مضبوط ہو گی اور آنے والے برسوں میں اس کو مزید فروغ حاصل ہو گا۔ یاد رہے کہ 23 مئی 2013ء کو پاکستان میں چینی وزیر اعظم کے دورے کے دوران، صدر پاکستان آصف علی زرداری اور چینی وزیر اعظم کے درمیان گوادر پورٹ کی حوالگی سمیت پاک چائنہ اقتصادی راہداری سمیت مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر چین اور پاکستان کے درمیان منصوبوں پر دستخط ہوئے تھے۔ راہداری کے بڑے منصوبے جو دوطرفہ تعاون سے ہیں: چین کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس قوم نے ہر دور میں کڑی محنت سے اپنا ایک بلند مقام حاصل کیا ہے۔ پاک چائنہ اقتصادی راہداری پروجیکٹ میں اب کئی ممالک شامل ہو چکے ہیں۔چین کا یہ پراجیکٹ اپنی تکمیل کی جانب رواں دواں ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے لیے تمام تر انتظامات مکمل ہیں، اس اجلاس سے دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت امیج دنیا میں جائے گا۔وزیر اطلاعات نے کہاکہ اجلاس کی سائیڈ لائن پر رہنماؤں کے درمیان دوطرفہ ملاقاتوں کے لیے بھی تیاریاں کی گئی ہیں، چینی وزیراعظم کے دورے میں دوطرفہ مذاکرات گیم چینجر ثابت ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ چینی وفود کے ساتھ مختلف سطح پر ملاقاتیں بھی طے ہیں جن میں تعاون کے نئے میدان تلاش کرنے کے ساتھ معیشت کو مضبوط کرنے پر بات ہوگی۔