صوبہ خیبر پختونخوا میں پچھلے بارہ سالوں سے بِلا شرکت غیرے حکمرانی کا ناقوس بجانے والی تحریک انصاف ، اِسی سیاسی عفریت کو وجود دینے والی ریاستی مقتدرہ اور پذیرائی دینے والے عوام گورننس کے بحران میں الجھ کر بتدریج ایک دردناک انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے پہلے وزیراعلی پرویز خٹک نے اپنی سرکاری ذمہ داریوں کو نبھانے کی بجائے نواز لیگ کی وفاقی حکومت کے خلاف باغیانہ روش اختیار کرکے شمال مغربی صوبہ کے پشتون معاشروں کو مرکزی دھارے سے دور دھکیلنے کے علاوہ ٹی ٹی پی کے کم و بیش 700 دہشتگردوں کو سرنڈر کرا کے اُن ” گڈ طالبان ” کی کھیپ تیار کر لی ، جنہیں موجودہ وزیر اعلی اب اسٹبلشمنٹ سے منسوب کرکے امن عامہ اور انتظامی بحران کا سب سے بڑا محرک قرار دیتے ہیں ۔ دوسرے وزیر اعلی محمود خان کی کم فہمی ، بزدلی اور نا تجربہ کاری کی وجہ سے یہ بدقسمت صوبہ سابق ڈی جی آئی جنرل فیض حمید کی مہم جوئی اور وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کی ذہانت کے بوجھ تلے دب کر اٹھارویں ترمیم کے تحت ملنے والی صوبائی خود مختیاری سمیت وزیراعلی کی قانونی اتھارٹی تک گنوا بیٹھا ۔ تحریک انصاف کی تیسری صوبائی حکومت کے مدار المہام علی امین گنڈہ پور کی غیر محدود سودا بازیوں ، حصول اقتدار کی خاطر ناپاک سمجھوتوں اور سرکاری وسائل کی لوٹ مار کے علاوہ ٹی ٹی پی اور اسٹبلشمنٹ کے مابین پیچیدہ تنازعات کے کھیل سے مفاد لینے کی کوشش نے پشتون روایات کی ڈوری میں بندھے حساس صوبہ کو گورننس کے بحران میں الجھا کر کبھی نہ تھمنے والی شورشوں میں مبتلا کر ڈالا ۔ اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ میں گورنمنٹ کا وجود عملاً ختم ہو کر رہ گیا ہے ، مغربی بارڈر سے ملحقہ زیادہ تر علاقوں میں سیکیورٹی فورسز اور مسلح جتھوں کے مابین جاری لڑائیوں نے جہاں حکومتی نظم و ضبط کو پراگندہ کرکے گورننس کے بحران کو دو چند کیا وہاں اسی شوریدگی نے پختون رسم و رواج کی گرفت کمزور ، مذہبی قیادت کی ساکھ متنازعہ اور ریاستی مقتدرہ کے خلاف نفرتوں کا زہر پھیلا کر اِس حساس صوبہ کے تمام اسٹیک ہولڈر کو فنا و بقاء کے خط امتیاز پہ لا کھڑا کیا ، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ حکمرانی کے اِس بحران کو خیبر پختون خوا کی حدود میں مقید رکھنے پہ قادر ہے تو یہ اُن کی بھول ہو گی ، بلآخر شورش کی یہ آگ وفاقی اداروں کو لپیٹ میں لیکر مملکت کی جغرافیائی وحدت کو ناقابل نقصان پہنچائے گی ۔ علی ہذالقیاس ،گورننس کی ناکامیوں کے باعث ایک طرف نفاذ اسلام کے نام پہ ابھرنے والے مسلح جتھوں نے سماجی آزادیوں کا دائرہ تنگ کر دیا ، دوسری جانب سرکاری فورسیز نے انتہا پسندوں سے نمٹنے کی کاروائیوں کو لیکر جبری نقل مکانی کے ذریعے سماج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی مشق ستم کیش کو آزما کر تہذیب و تمدن کے اُس بنیادی ڈھانچہ کو منہدم کر ڈالا جو پٹھانوں کی سماجی زندگی کو ریگولیٹ کرنے کا فطری ذریعہ تھا ، انہی خوبصورت روایات کے سایہ میں وہ صدیوں سے محبت اور لڑائی جھگڑوں کے ذریعے اپنی روزمرہ زندگی کو دلچسپ بناتے رہے، لاریب ، صرف محبت ہی زندگی کے دکھوں کا ازالہ کر سکتی ہے ۔ چنانچہ انہی پیچیدہ عوامل کے گرداب میں پھنسے صوبہ کے خوش فہم وزیر اعلی نے 24 جولائی کی ” کُل جماعتی کانفرنس” کے بعد اپنی جارحانہ پریس بریفنگ میں خیبر پختون خوا پولیس ، سول بیوروکریسی ، عوام ، بالخصوص سابق قبائیلی اضلاع کے اجڑے ہوئے لوگوں کی ابہام سے لبریز بے چینی کو متشکل کرنے کے لئے وفاقی خفیہ اداروں پر عسکری تنظیموں کی درپردہ معاونت کے الزامات عائد کرکے مرکز گریز تنظیموں ، مذہبی جماعتوں اور کالعدم پی ٹی ایم کے روایتی موقف کی توثیق کرکے وفاق کے خلاف عوامی ناراضگی کی دھار کو زیادہ تیز کر دیا ، اگرچہ دو دن بعد وزیراعلی نے اچانک پسپائی اختیار کرکے بظاہر بڑھتی کشیدگی کو تحلیل کر دیا لیکن اُن کی جارحانہ گفتگو کے دور رس اثرات کو زائل کرنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ پہلی بار صوبہ کے چیف ایگزیکٹو نے قوم پرست جماعتوں اور کالعدم سیاسی تنظیموں کی طرف سے رائے عامہ کی سطح پر ریاستی مقتدرہ کے خلاف پھیلائے گئے منفی پروپگنڈہ کی توثیق کرکے انہیں ناقابل تسخیر سیاسی بیانیہ فراہم کر دیا ، چنانچہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ ہماری ریاستی مقتدرہ بہت جلد قومی بیانیہ پہ اپنی روایتی اجارہ داری کھو دے گی ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایسا صوبہ جہاں دہشت گردی اور شورش بڑھ رہی ہو وہاں کی صوبائی حکومت اگر دفاعی اداروں ، جیسے فوج ، ایف سی یا انٹیلیجنس ایجنسیوں پہ عدم اعتماد کا اظہار کر دے تو اپنے اِسی رویہ سے وہ مسلح جتھوں اور مزکز گریز تنظیموں کو تقویت پہنچا کر سیکیورٹی اقدامات میں خلل پیدا کرنے کا محرک بنے گی ، جس سے انتظامی اداروں کے مابین کوارڈینشن کا فقدان گہرا ہونے سے مشترکہ حکمتِ عملی کی کمی دہشت گرد عناصر کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ فراہم کر سکتی ہے ۔ حالات اگر زیادہ بگڑے تو مرکز و صوبہ کے مابین تعلقات کشیدہ اور آئینی حدود پر سوال اٹھنے لگیں گے ، جس کے نتیجہ میں لامحالہ شہریوں کا اپنے بہترین مفادات میں کام کرنے اور سماجی معاہدے کو برقرار رکھنے کی حکومتی صلاحیت پر سے اعتماد اُٹھ جائے گا ۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اس وقت ہماری صوبائی حکومت معاشی بحران، قدرتی آفات، صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال یا دیگر اہم چیلنجوں سے موثر طریقے سے نمٹنے کی صلاحیت کھو رہی ہے۔ عدلیہ، مقننہ اور سول سروس جیسے اہم ادارے کمزور، بد عنوان اور بتدریج غیر موثر ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ مسلح تنازعات سول حکومتی ڈھانچے کو نہایت تیزی کے ساتھ مفلوج بنا رہے ہیں جو بلآخر بڑے پیمانے پر عدم استحکام کا باعث بنیں گے ۔ دوسری طرف وسیع علم اور لامحدود طاقت کے باوجود ہمارے سیکیورٹی ادارے اپنے مقاصد کا ادراک اور اپنی پالیسیوں کے متعلق پختہ یقین نہیں رکھتے، نشنل ایکشن پلان کو پس پشت ڈال دیا گیا، ریاستی پیشقدمی کی رفتار سست اور اہداف علامتی ہیں ، انکی پوری مساعی کا محور مسلح دہشتگردوں کے تعاقب تک محدود ہے ، جس وقت تک دہشت گرد معاشرے میں موجود اپنے خاندانون کے ساتھ مربوط رہیں گے انکی تسخیر ممکن نہیں ہو گی ، جب تک دہشتگردوں کے باپ ،بیٹے، بھائی سرکاری عہدوں پہ فائز اور اوپن مارکیٹ میں تجارت سے دولت کمانے اور پاکستانی پاسپورٹ لیکر بیرون ملک سرمایا کاری کرنے میں آزاد ہوں گے تب تک دہشتگردی نشو ونما پاتی رہے گی ، عام شہری ، پولیس اہلکار ، ججز اغوا اور سرکاری ٹھیکیدار بھتہ دینے پہ مجبور رہیں گے، حکومتی چہرہ کا درجہ رکھنے والے ڈپٹی کمشنرز پہ قاتلانہ حملے ہوتے رہیں گے یعنی جب تک اس پیچیدہ بحران کے سماجی محرکات اور سرکاری ڈھانچہ کے اندر سے ملنے والی سہولت کاری نہیں رکتی اس وقت تک یہ مرض لاعلاج رہے گا ۔ حکمرانی کا بحران بڑھتا جائے گا۔ قصہ کوتاہ حکمرانی کا یہی پیچیدہ بحران معاشرے کو ریگولیٹ کرنے والے بنیادی نظاموں میں گہری ناکامی کا مظہر بن کر نمودار ہو گا ، جس کے ممکنہ طور پر دور رس نتائج ہوں گے ۔
