ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیو کے خاتمے کی مہم بری طرح ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے، جہاں اورینٹیشن میں عامل صحافیوں کی جگہ محکمہ ہیلتھ اور ضلعی انتظامیہ نے دکانداروں، سرکاری ملازمین اور مڈل فیل بلیک میلرز کو شریک کیا ہے۔
اس عمل نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسف کی جانب سے مختص اربوں روپے کے فنڈز کے ضیاع پر بھی سنگین سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ دوسری جانب انسداد پولیو پروگرام میں دوہری ملازمت کرنے پر یونیسف کے ہیلتھ سپیشلسٹ ڈاکٹر محمد طفیل کی اینٹی کرپشن پشاور کے ہاتھوں گرفتاری نے بھی اس اہم قومی فریضے میں ادارے کی سنجیدگی اور مورال پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ہیں۔ گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان کے نجی ہوٹل میں صحافیوں کے لیے اورینٹیشن میں ضلعی انتظامیہ، محکمہ ہیلتھ، WHO اور یونیسف کی جانب سے دکانداروں, سرکاری ملازمین اور مڈل فیل بلیک میلرز کی بطور صحافی شرکت نے انسداد پولیو مہم کو مزید گہنا دیا ہے۔ عوام کا خیال ہے کہ پولیو کے خاتمے کے لیے ورلڈ بینک اور ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری ہونے والے اربوں روپے کے فنڈز مؤثر طریقے سے استعمال ہونے کی بجائے ضائع کیے جا رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کئی عہدیداران بشمول ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلعی انتظامیہ اس ناکامی میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ اس صورتحال پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
مقامی حلقوں کی جانب سے عالمی بینک، وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور صوبائی وزیر صحت سے براہ راست مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس غفلت میں ملوث تمام اہلکاروں کے خلاف فوری اور سخت تادیبی کارروائی کی جانی چاہیے۔ عوام کا اپنے معصوم بچوں کے لیے مطالبہ ہے کہ پولیو کے خاتمہ کے قطرے تمام بچوں کو پلائے جائیں اور میڈیا پر کمپین میں حقیقی صحافیوں کو شامل کیا جائے تاکہ عوامی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے اور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کو اس موذی مرض سے ہمیشہ کے لیے نجات دلائی جا سکے۔