پاکستان کا برفانی چیتے کو موسمیاتی موافقت کی بین الاقوامی علامت قرار دینے کا عزم

اسلام آباد: پاکستان وائلڈ لائف پروٹیکشن ایوارڈز 2024 کی تقریب میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر رومینا خورشید عالم نے برفانی چیتے کو پہاڑی ماحولیات اور آب و ہوا کے موافقت کی بین الاقوامی علامت کے طور پر نامزد کرنے کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ یہ اعلامیہ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے اور اپنی منفرد جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قوم کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی (یو این ایف سی سی سی) کا آئندہ COP29 11-22 نومبر، 2024 کو آذربائیجان کے شہر باکو میں شیڈول ہے ۔جو برفانی چیتے کو اعلی پہاڑی ماحولیات اور آب و ہوا کے موافقت کی عالمی علامت کے طور پر فروغ دینے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
مارچ 2024 میں سمرقند میں 8 ویں عالمی برفانی چیتے اور ماحولیاتی نظام تحفظ پروگرام (جی ایس ایل ای پی) اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس کے دوران کمیٹی نے اونچے پہاڑی ماحولیاتی نظام میں برفانی چیتے کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ اس دوران اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل سے برفانی تیندوے کو اونچے پہاڑی ماحولیات اور آب و ہوا کے موافقت کی ایک طاقتور بین الاقوامی علامت کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی درخواست کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
ایشیا کے اونچے پہاڑجنہیں اکثر “زمین کا تیسرا قطب” کہا جاتا ہے، دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں کے مسکن ہیں اور شمالی نصف کرہ سے دوگنا شرح سے گرمی کا سامنا کر رہے ہیں ۔ یہ تیز گرمی ہمالیہ ، ہندوکش ، پامیر ، تیان شان ، الٹائی پہاڑ اور تبتی سطح مرتفع سمیت تمام خطوں میں گلیشیئرز اور ماحولیاتی نظام کو متاثر کر رہی ہے ۔ پاکستان جو آب و ہوا کی تبدیلی کے سب سے زیادہ خطرے والے پانچ ممالک میں سے ایک ہے اور اسی ہزار مربع کلومیٹر کے برفانی چیتے کے مسکن کا محافظ ہے ، گذشتہ دو دہائیوں کے دوران گلیشیئر ز کو شدید متاثر ہوتے ہوئے دیکھا ہے جس سے زراعت ، پانی کی فراہمی ، پن بجلی اور جنگلی حیات کے مسکن بھی متاثر ہوئے ہیں۔
رومیناخورشید عالم نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی ہمارے ماحولیاتی نظام اور جنگلی حیات کے لیے ایک اہم خطرہ ہے ۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور شدید موسمی واقعات جنگلی حیات کے رہائش گاہوں کومتاثر کر رہے ہیں اور کمزور انواع پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ہمیں اپنی تحفظ کی کوششوں کو مضبوط کرنا چاہیے اور ان اثرات کو کم کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ رومینا نے مزید کہا کہ برفانی چیتے کو آب و ہوا کی تبدیلی کی موافقت کی بین الاقوامی علامت کے طور پر تسلیم کرنے سے فطرت کے ساتھ پائیدار اور ہم آہنگ ترقی کا مظاہرہ کرنے والی قوم کے طور پر پاکستان کا امیج عالمی سطح پر بہتر ہوگا۔
سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد علی نواز نے برفانی چیتے کو بین الاقوامی علامت کے طور پر تسلیم کرنے کی اعلی حکومتی سطح پر اقدامات اٹھانے کو شاندار انداز میں سراہتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے جاری کوششوں کو دوام ملے گا۔انھوں نے کہا کہ 2007 میں ایس ایل ایف پاکستان کے سائنسدانوں نے چترال میں ایک برفانی تیندوے پر تجربہ کیا تھا جس نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان 1,600 مربع کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ جس سے یہ معلوم ہوا کہ وہ بیک وقت کئی ممالک کے سرحدوں میں آتا جاتا رہتا ہے جس سے پہلی بار باقائدہ سرحد پار تحفظ کی کوششوں کی ضرورت کا بھی ادراک ہوا۔
ڈاکٹر نواز نے 2013 میں جی ایس ایل ای پی (GSLEP)کے قیام پر بھی روشنی ڈالی جو 12 ممالک (افغانستان، بھوٹان ، چین، ہندوستان، قازقستان، کرغیز جمہوریہ، منگولیا، نیپال، پاکستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان) کا اتحاد ہے اور برفانی چیتوں اور ان کے رہائش گاہوں کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ اس عالمی فورم میں پاکستان کا کردار جنگلی حیات کے تحفظ میں اس کی قائدانہ کردار کی نشاندہی کرتا ہے۔
جی ایس ایل ای پی اور جنگلی حیات کے سفیر سردار جمال خان لغاری نے اس اقدام کے بارے میں امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے برفانی چیتے کے تحفظ کی کوششوں کو تقویت ملے گی اور پائیدار ترقی میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی حیثیت سے پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے “تھرڈ پول” خطے میں آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
انہوں نےمزید کہا کہ برف سے ڈھکی چوٹیوں کے قریب رہنے والے برفانی چیتے صحت مند پہاڑی ماحولیاتی نظام ، آب و ہوا اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی علامت ہیں۔ وہ میٹھے پانی کی فراہمی اور کاربن کو الگ کرنے جیسی ضروری ماحولیاتی نظام کی خدمات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس سے اربوں لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
پاکستان اپنی قومی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کے لیے پرعزم ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے، زمینی انحطاط کو روکنے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی کوششوں کے ساتھ اقتصادی ترقی کو متوازن کرنے کی کوشش کرتی ہے۔