اسلام آباد: پاکستان میں شہریوں، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے اختلاف رائے کے دائرے سکڑ رہے ہیں، فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ رپورٹ 2024 آزادی صحافت اور آزادی اظہار کو درپیش خطرات اور چیلنجز سے متعلق تفصیلی رپورٹ میں انکشافات۔ آن لائن اختلاف رائے کے لیے کم رواداری، الیکشن ڈے پر موبائل نیٹ ورکس کی بندش، انٹرنیٹ تک رسائی میں رکاوٹیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی جبری معطلی، اور صحافیوں اور بلاگرز پر حملوں اور ہراسانی سمیت چار صحافیوں کے قتل نے گزشتہ 12 ماہ کے دوران پاکستان میں عام آزادی اظہار اور اختلاف رائے کے دائرہ کار کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے اور میڈیا کی آزادی کے خلاف خطرات کو بڑھا دیا ہے۔
یہ بات سول آزادی گروپ فریڈم نیٹ ورک کی جانب سے جاری کی گئی سالانہ پاکستان فریڈم آف ایکسپریشن اینڈ میڈیا رپورٹ 2024 میں کہی گئی ہے جو 3 مئی کو ورلڈ پریس فریڈم ڈے کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ مئی 2023 سے اپریل 2024 کے عرصے پر محیط ہے۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے “آزادی اظہار کا خاتمہ، شہریوں، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی خاموشی”
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے رپورٹ کی لانچنگ کے موقع پر کہا، “آزادی اظہار اپنا مفہوم کھو دیتی ہے اگر شہری اور سیاسی جماعتوں میں ان کے نمائندے اپنے آپ کو آزادانہ طور پر ظاہر نہیں کر سکتے اور میڈیا اور آن لائن شہری جگہوں پر پابندیوں کو آئینی ضمانتوں کی نفی میں محدود کر دیا جائے”۔
رپورٹ میں بڑی تشویش کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ مذکورہ مدت میں چار صحافی قتل ہوئے جن میں سے دو سندھ اور دو پنجاب میں تھے۔ فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صحافیوں اور میڈیا کے دیگر کارکنوں کے خلاف جرائم کے کل 104 واقعات رونما ہوئے جن میں قتل، حملے، تشدد، اغوا، دھمکیاں اور قانونی مقدمات کا اندرج شامل ہیں۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ “انتہائی سیاسی عدم استحکام اور حکمرانی اور اقتصادی عدم استحکام نے مئی 2023 اور اپریل 2024 کے درمیان ایک سال میں پاکستان میں تین حکومتوں کو دیکھا ہے۔ اپنے اقدامات کے ذریعے تینوں حکومتوں کو لگا کہ ان کے سب سے طاقتور سیاسی اور ریاستی شخصیات میں آزادی اظہار، خاص طور پر آن لائن اختلاف رائے کے لیے رواداری کی حد کم کرنے کے حوالے سے تشویشناک اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے۔”
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کریک ڈاؤن کا ایک ایسا نمونہ سامنے آیا جس میں درجنوں صحافیوں اور بلاگرز کو قانونی نوٹسز دیئے گئے، کچھ کو گرفتار کیا گیا اور دیگر پر حملہ کیا گیا اور جارحانہ طور پر ڈرایا دھمکایا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “سیاسی کارکن بھی اس کی زد میں آگئے۔ یہ سب کچھ اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے انتباہات کے پس منظر میں ہوا، جن میں سرکاری حکام بھی شامل تھے، اور اس کے بعد آن لائن اظہار رائے کو باقاعدگی سے نشانہ بنایا گیا۔”
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی دھمکیوں کے علاوہ، کچھ غیر ریاستی عناصر کے جارحانہ اقدامات کے نتیجے میں 200 سے زائد صحافیوں، بلاگرز اور دیگر ڈیجیٹل سے وابستہ صحافیوں کو 70 سے زائد قانونی نوٹسز کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ “بہت سے افراد اس کے نتیجے میں سامنے آئے۔ کہ مختلف سرکاری محکموں کی ایک ‘جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم’ نے ان افراد کی نشاندہی کا کام کیا تھا جو مبینہ طور پر کچھ ججوں کے خلاف ایک مہم چلا رہے تھے حالانکہ چیف جسٹس نے بعد میں کہا کہ وہ شکایت کنندہ نہیں تھے اور عدلیہ کو آزادی اظہار کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا جس کا مقصد دوسرے تھے”۔ فریڈم نیٹ ورک کی تفصیلی رپورٹ میں میڈیا پر قدغن لگانے اور آزادی اظہار کو سلب کرنے کے حوالے سے دو متنازعہ قوانین پر بھی بات کی گئی کہ وفاقی حکومت سائبر کرائم اور بلیک میلنگ کے تدارک کی آڑ میں پریس فریڈم اور صحافیوں کے خلاف اقدامات کے درپے ہے اور ایسی قانون سازی کے لیے متعلقہ میڈیا تنظیموں سے مشاورت نہیں کی گئی اسی طرح پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 کے لاگو ہونے کے باوجود وفاقی حکومت سیفٹی کمیشن کا چیئرمین مقرر کرنے میں ناکام رہی ہے۔
رپورٹ میں اس امر کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان کے دور دراز علاقوں اور کچھ شہروں میں آزادی اظہار اور عوامی صحافت کے لیے ڈیجیٹل میڈیا نیوز ادارے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہے ہیں جن میں ڈیجی میپ (ڈیجیٹل میڈیا الائنس پاکستان) جو پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا نیوز اداروں کا ایسا پہلا پلیٹ فارم ہے جس کا مقصد عوامی صحافت کا فروغ اور ڈیجیٹل صحافیوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے اس سے وابستہ اداروں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور خیبر پختونخوا میں ڈیجی میپ کے ممبر دامان ٹی وی اور ہزارہ ایکسپریس نیوز کی نمایاں کارکردگی اور عوامی صحافت کے ضمن میں پبلک کے اعتماد اور فالوونگ میں اضافہ کا بطور خاص ذکر شامل ہے۔