پی ٹی آئی وزیر شکیل خان کااستعفیٰ، 7 ارب کی کہانی، کروڑوں روپے کا کمیشن کس، کس نے لیا؟

پشاور : احتساب کے لیے بنائی گئی کمیٹی کو سابق وزیر تعمیرات و مواصلات شکیل خان کے جمع کرائے گئے جواب کی کاپی دامان ٹی وی کو موصول۔ کمیٹی کو جمع کرائے گئے جواب کے مطابق محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے سابق سیکرٹری کی بد عنوانی، بدانتظامی اور وزیر اعلیٰ کی مداخلت سے مطلق تمام حقائق بیان کیے گئے ہیں، سابق صوبائی وزیر شکیل خان کے مطابق مئی اور جون میں تعمیراتی کاموں کی ادائیگی کے سلسلے میں سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو نے علم میں لائے بغیر مختلف اوقات میں چھ ارب 87کروڑ فنڈز جاری کیے جبکہ فنڈز کی ریلیز پر کمیشن وصول کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی کہ فنڈز ریلیز پر دس سے بیس فیصد کمیشن مانگا جا رہا ہے، جب سیکرٹری سے اس سلسلہ میں پوچھاگیا تو ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی نے ہدایت کی ہے اور وہ خود فنڈز جاری اور نگرانی کریں گے،جبکہ سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو نے تقرری کے بعد اپنے من پسند اور چہیتے آفیسرز کو بھی سی اینڈ ڈبلیو میں تعینات کیا جن میں تین ایکسین اور باقی کمپیوٹر آپریٹر اور کلرک شامل ہیں۔
قانونی کے مطابق ترقیاتی کاموں کی ادائیگوں کے لئے مختص فنڈز کا اجراء ڈائریکٹر پر مشتمل کمیٹی کی مشترکہ ذمہ داری ہے تاہم سی اینڈ ڈبلیو میں اکاونٹ آفیسر اور سیکرٹری نے ڈائریکٹر ٹیکنیکل اور اکاونٹ آفیسر کو نظر انداز کرکے مذکورہ چہیتے افسران کے ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز جاری کیے،جس میں بڑا حصہ اپنے منظور نظر افسران کو جاری کیا گیا، سابق وزیر شکیل خان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ چہیتے افسران کو منظور شدہ لاگت میں تقریباً 80فیصد کے حساب سے نظر ثانی لاگت میں اضافہ کیا گیا۔
ایکسین نارتھ وزیرستان انجینئر وحید اللہ کے ترقیاتی کاموں میں سو فیصد زائد ادائیگی کی گئی، مذکورہ منصوبہ کی منظورہ شدہ لاگت303.448ملین سے بڑھا کر 627.275ملین کی گئی، اسی طرح ایک دوسرے ترقیاتی منصوبے کی منظور شدہ لاگت 183.334ملین سے بڑھا کر421.934ملین کی گئی اسی طرح دیگر ترقیاتی منصوبوں کی لاگت میں بھی اضافہ کیا گیا۔
کرپشن، محکمہ میں جاری بد عنوانی اور بد انتظامی پر سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیوکی جانب سے عدم تعاون سے متعلق پارٹی کے سینئر اور پارلیمانی قیادت کو اگاہ کیا کہ یا تو استعفیٰ دے دوں یا پھر خاموشی تماشائی بنا رہوں، جس پر پارٹی کے سینئر اور پارلیمانی قائدین نے مشورہ دیا سسٹم میں گھس کر اور بظاہراس کاحصہ بن کران تمام کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا جائے، تاہم کرپشن کی تہہ تک پہنچنے کے لئے اور اس میں ملوث کرداروں کو بے نقاب کرنے کے لئے سیکرٹری کے ساتھ تعلقات بڑھانے شروع کیے۔
سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو کی جانب سے تین کروڑ روپے کی پیش کش کی گئی میرے انکار پر رقم بڑھا کر پانچ کروڑ کر دی گئی۔ سیکرٹری نے پیسوں کے علاوہ نئی ماڈل کی گاڑی فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی۔رقم قبول کرنے سے انکار پر سیکرٹری نے کہا کہ اس نے ریلیز پر جتنی رقم وصول کی ہے اس رقم میں سے اس کو صرف تین کروڑ خود رکھنے ہیں۔سیکرٹری کے بقول اس نے 20 کروڑ روپے مشر (وزیر اعلی صاحب) کو پہنچائے ہیں اور دس کروڑ روپے مشر نے دیگر مقتدر حلقوں کو دینے کے نام پر لیے ہیں۔
ساڑھے تین کروڑ روپے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو اور ڈھائی کروڑ روپے سیکرٹری محکمہ خزانہ کو دیئے گئے ہیں۔ سیکرٹری نے پھر پانچ کروڑ روپے حوالہ کرنے کی پیشکش کی لیکن میں نے رقم اپنے پاس رکھنے کا کہا،تاہم اس دوران 31 جولائی کو اطلاع ملی اڈیالہ جیل میں خان صاحب سے میری ملاقات طے ہے۔ میں نے یکم اگست کو دیگر پارٹی قائدین کے ہمراہ تحریک انصاف کے بانی چیرمین کے ساتھ اڈیالہ جیل میں ملاقات کی۔ خان صاحب نے مجھ سے کہا کہ اس نے مجھے خصوصی طور پر بلایا ہے کہ میری وزارت میں بدعنوانی کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں۔
میں نے خان صاحب کو کھل کر اپنی وزارت کی رپورٹ پیش کی اور کہاکہ عوام کا اعتماد کم ہوتا جار ہا ہے ایک کرپشن کی وجہ سے اور دوسری مقتدر حلقوں کی جانب سے صوبائی حکومت میں مداخلت کی وجہ سے اور صوبائی حکومت درپردہ ملی ہوئی ہے جس پر خان صاحب نے مجھے ہدایت کی کہ اس ساری صورت حال سے متعلق پریس کانفرنس کرنی ہے اور تمام صوبائی وزراء، انتظامی سیکرٹریز اور انتظامی افسران کو پیغام پہنچانا ہے کہ صوبے میں کرپشن کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر اپنی وزرات کے ساتھ متعلقہ ترقیاتی پراجیکٹ کائٹ کی ایک ترقیاتی سکیم میں مالی بدعنوانی کے حوالے سے انکوائری شروع کی تھی جو کہ وفاقی وزیر امیر مقام کی تعمیراتی کمپنی اعتماد بلڈرز کے متعلق تھی لیکن سیکرٹری ڈاکٹر اسد نے اس سلسلہ میں تعاون نہ کیا بلکہ ریکارڈ تک فراہم نہیں کیا جبکہ انکوائری کو دس جون 2024کو بند کیا گیا پھر دوبارہ 13جون کو تحقیقات کا حکم دیا لیکن وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر دوبارہ پانچ جولائی 2024کو ایک بار پھر انکوائری کو بند کر دیا گیا۔
اور اس کے بعد مانکیال روڈ کو دوبارہ ری ٹینڈرکیا گیا، پہلے ٹینڈر میں وفاقی وزیر امیر مقام کی کمپنی کو مانکیال روڈ کا ٹھیکہ 15فیصد کم ریٹ پر دیا گیا تھا تاہم بعد میں وہی ٹھیکہ ری ٹینڈر کرکے اسی کنسٹرکشن کمپنٹی کو 65 فیصد ریٹ پر دوبارہ دیا گیا، سارے معاملے میں تقریباً دو سے تین ارب روپے کا غبن کیا گیا ہے، جواب میں خیبر پختونخوا رورل ایکسیبلیٹی پراجیکٹ کے تحت ورلڈ بینک کے تعاون سے 700 کلومیٹر تک سڑکوں کی تعمیر سے متعلق بھی بدعنوانی کی نشاندہی کی گئی ہے۔