لکی مروت میں میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی کے قتل کیس میں مقتولہ کے والد نے قاتل کو جرگے میں معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اتوار کو سرائے نورنگ کے علاقے میں راجپوت، مروت اور آفریدی اقوام کے مابین راضی نامے کے لیے ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہوا۔ جرگہ میں کوہاٹ تبلیغی مرکز کے امیر پیر اعظم شاہ کی جانب سے ملک ذکریا کی قیادت میں قاتل مجاہد آفریدی کے خاندان سمیت آفریدی قوم کے سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔
جرگے میں افریدی خاندان کے سینکڑوں افراد نے قاتل مجاہد افریدی کی جانب سے عاصمہ رانی کے بہیمانہ قتل پر اجتماعی طور پر راجپوت اور مروت قوم سے معافی مانگی اور صلح کی درخواست کی۔ مقامی صحافیوں کے مطابق جواب میں عاصمہ رانی کے والد غلام دستگیر نے مجرم مجاہد افریدی کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج پشاور کی عدالت نے تین ماہ قبل سنٹرل جیل پشاور میں اس قتل کے مقدمے کا فیصلے سناتے ہوئے ایک مجرم مجاہد اللہ آفریدی کو سزائے موت جبکہ دو کو ملزمان کو بری کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ عاصمہ رانی کو سال 2018 میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر کوہاٹ میں قتل کیا گیا تھا۔ وہ ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد میں ایم بی بی ایس تھرڈ ایئر کی طالبہ تھیں اور کوہاٹ کے علاقے میانخیل میں شادی کے رشتے سے انکار پر ان کو گولیاں ماریں گئیں۔
مقتولہ کے بھائی کی جانب سے پولیس میں درج مقدمے میں کہا گیا تھا کہ قاتل ان کی بہن سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن مجرم پہلے سے شادی شدہ تھا جس وجہ سے رشتہ دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ مجرم اس واقعے کے بعد پاکستان سے فرار ہو کر سعودی عرب چلا گیا تھا۔ تاہم سول سوسائٹی کے احتجاج پر مجرم مجاہد اللہ کے ریڈ وارنٹ جاری کر کے اس کو انٹرپول کی مدد سے جبکہ اس کے ملزم بھائی اور سہولت کار کو کوہاٹ ہی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ عاصمہ رانی کے مقدمہ میں پولیس نے دہشت گردی کی دفعات لاگو کی تھیں جن کو بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ میں مجرم کی جانب سے دائر کردہ پیٹیشن پر ختم کر دیا گیا تھا۔ قتل کے اس مقدمے کی کارروائی کے دوران عاصمہ رانی کا واقعے کے بعد بیان کی ریکارڈ کردہ ویڈیو بطور ثبوت پیش کرنے کے علاوہ گواہ بھی پیش کیے گئے تھے۔ عاصمہ رانی نے عدالت کی جانب سے مجرم قرار دیے جانے والے شحض کو فائرنگ کا مرتکب قرار دیا تھا۔ اس قتل کے واقعے کی ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر کوریج ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا پر عوام نے اس پر اپنے غم وغصہ کا اظہار کیا تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس واقعے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔