گزشتہ ہفتے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں “عزم استحکام” آپریشن کی منظوری دی گئی تاہم ذرائع کے مطابق اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات میں عمران خان نے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور پر ناراضی کا اظہار کیا اور آپریشن پر آمادگی کو اپنی 2002 سے جاری آپریشن مخالف پالیسی کے مخالف قرار دیا جس کے تحت وہ نہ صرف ملک میں کسی بھی آپریشن کے مخالف رہے بلکہ امریکی ڈرون حملوں کے بھی بڑے ناقد رہے اور ان حملوں کے خلاف انہوں نے مظاہروں کی قیادت کی اور اس ناراضی اور خفگی بھری ملاقات کے بعد وزیر اعلی علی امین گنڈا پور جب باہر نکلے تو میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے ایسے کسی بھی آپریشن کے ذکر سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایپکس کمیٹی میں ایک نام آیا “عزم پاکستان” لیکن اس کے ساتھ آپریشن کا ذکر نہیں تھا۔ وزیر اعلی کے اس بیان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ایجنڈا پر موجود آئٹم کے وجود سے انہیں انکار نہیں تھا لیکن کسی وجہ سے وہ لفظ “آپریشن” سے کنی کتراتے ہوئے اس کے انکاری تھے۔ وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ابھی آئی ایس پی آر کی پالیسی نہیں اور نہ طریقہ کار آیا ہے جب طریقہ کار آئے گا تو تب دیکھیں گے جبکہ دوسری جانب ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے پالیسی پر بات چیت ہوئی ہے اور پالیسی یہ تھی کہ امن و امان کا قیام اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو ۔ ایک طرف ایپکس کمیٹی میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دے دی گئی تھی جس کے بعد پی ٹی آئی اور جے یو آئی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا لیکن وزیر اعلی کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود علی امین گنڈا پور نے ایک اہم اور حساس میٹنگ میں متفقہ منظوری پانے والے ایجنڈا سے انکار کرتے ہوئے سرے سے اس کے وجود کو مسترد کر ڈالا لیکن بات یہیں پر نہ رکی بلکہ پی ٹی آئی قیادت اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کرنے والی پی ٹی آئی کی کمیٹی کے سربراہ اسد قیصر نے بھی وزیر اعلی سے ایسے کسی بھی آپریشن کا حصہ نہ بننے کا مطالبہ کیا ہے اور مختلف پی ٹی آئی رہنمائوں نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلی پر دبائو بڑھایا ہے کہ آپریشن سے دوری اختیار کی جائے مگر ایپکس کمیٹی کے ممبر ہونے کے ناطے اجلاس میں طے پانے والے فیصلوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری بھی وزیر اعلی پر عائد ہوتی ہے اب ایسے حالات میں کہ جب وفاقی کابینہ ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کی منظوری دے چکی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کو ”عزم استحکام آپریشن“ سے متعلق قیاس آرائیوں سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عزم استحکام آپریشن سے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں، عزم استحکام آپریشن ماضی کی طرح بڑے آپریشن سے مختلف ہے، اس آپریشن سے آبادیوں کو نقل مکانی اور مخصوص علاقے میں نہیں ہوگا مگر وزیر اعلی علی امین گنڈا پور جو دونوں اطراف کو راضی رکھنے پر دوہرا موقف اختیار کیے ہوئے ہیں دراصل اپنے لیے آئندہ آنے والے دنوں میں بڑی مشکل سے دوچار ہونے والے ہیں جب ان کی پارٹی جے یو آئی ف سے مذاکرات کر رہی ہے اور دونوں جماعتوں کی اعلی قیادت آپریشن کی مخالف ہے تو ایسے میں وزیر اعلی کے سامنے کھائی اور پیچھے کنوں ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے دبنگ اور جوشیلے انداز خطابت کے ذریعے وہ سول و عسکری قیادت سمیت بانی پی ٹی آئی کو کیسے اور کتنا رام کر پاتے ہیں۔